|

وقتِ اشاعت :   July 18 – 2022

آج کے دور میں جب کوئی کہتا ہے نہ ہم پر بس آنکھیں بند کر بھروسہ کرو تو حیرت ہوتی ہے…یعنی دماغ کا استعمال شروع سے ہی ممنوع کر دیا گیا ہے۔ جبکہ ایسا تو خدا نے کبھی نہیں کہا، وہ کہتا ہے جانو، سمجھو پرکھو اور مانو۔
ہمارے ہاں ہر شعبے میں روایت ہے کہ جس کو مانو پھر آنکھیں بند کر کے مانو اور اس سے کوئی سوال جواب نہیں ہونا چاہیے۔جیسے مذہب میں سب کے اپنے اپنے مولانا ہیں اور ان میں اکثریت ایک دوسرے کے خلاف ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں کو یہی درس دیتے ہیں کہ انہیں آنکھیں بند کر کے مانا جائے اور ان پر سوال نہ اٹھایا جائے۔ وہی انکی کامیابی کی ضمانت ہے وگرنہ وہ منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ اس کیلیے ضروری ہے کہ صرف انہی کا ہاتھ پکڑا جائے۔
پھر ہمارے ہاں یونیورسٹیوں میں جب ریسرچ پروجیکٹ شروع ہوتے ہیں تو ہر پروفیسر دوسرے پروفیسر کی برائی کرے گا اور چاہے گا سارے اچھے بچے اسی ہی کو آنکھ بند کر کے چْنیں۔ اور جو ایسا نہیں کرے گا وہ اپنے ساتھ زیادتی کر رہا ہے۔ یہی صورت حال سیاست میں ہے اور اب یہی صورت حال زندگی کے ہر شعبے میں سرایت کر رہی ہے۔ جہاں ہم سب کو اپنے اپنے فالورز بنانے ہیں جو آنکھیں بند کرکے ہم پر بھروسہ کریں اور دماغ استعمال مت کریں۔
میرا ماننا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ ہم پستی کا شکار ہیں۔ ہم حقیقت کو خود جانتے سمجھتے نہیں، اور نہ ہی اس کیلیے کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ یہ مشکل راستہ ہے۔ اس لیے ہم ہمیشہ حقیقت دوسروں کی آنکھوں سے ہی دیکھتے ہیں۔ آپ کے گرو نے ایسا کہہ دیا تو بس کافی ہے۔ اب مزید کھوجنے کی ضرورت نہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ادب کے اصولوں کے خلاف ہے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ارتقاء کے عمل کے خلاف ہے۔ اس وجہ سے انوینشن رک جاتی ہے۔ سبھی ایک جیسے clone بنے پھرتے ہیں۔ اور اسکا کامیابی سے کوئی تعلق نہیں۔۔ آپ جس کی تلاش کرتے ہو آپ کو وہی ملے گا۔ بس ہمیشہ کھوج کی جگہ رہنی چاہیے۔ تبھی آپ سیکھ پاتے ہیں وگرنہ آپ صرف مانتے ہیں۔ تلاش جاری رہنی چاہیے۔۔ آپ ایک جگہ سے سیکھ کر آگے بڑھیں اور دوسروں کو سیکھنے دیں۔ پھر آپ کسی اور جگہ سے سیکھیں پھر آگے بڑھیں۔۔۔ تبھی تو اصل حقیقت کا ادراک ملے گا۔ ہاں مانیے مانیے جسے ماننا ہے مانیے مگر دماغ کا استعمال تو بند مت کیجئے۔۔اور اگر آپ کی منزل ماننے پر آپ کو مل جاتی ہے تو ٹھیک ہے آپ خوش رہیے مگر اگر سبھی ایسا کریں گے تو کسی تبدیلی کی بات نہیں کرسکتے۔۔۔ وہ نہیں آنے والی۔۔۔
افسوس یہ ہے کہ ہمارے بے شمار لوگوں کو ابھی اس چیز کا شعور نہیں جسکا فائدہ سمجھ دار لوگ اٹھاتے ہیں اور پھر وہ انہیں اپنی سوچ کا، اپنے نظریے کا غلام بنا لیتے ہیں۔ اور معصوم لوگ آنکھیں بند کیے لبیک لبیک کہتے رہتے ہیں۔
ہر گرو جانتا ہے اسکا علم ایک جگہ پر جا کر ختم ہو جاتا ہے اور صرف وہی حقیقت نہیں، بے شمار اور حقیقتیں بھی ہیں مگر ہم ڈرتے ہیں کہ ہمارے ماننے والے کم نہ ہو جائیں یا ہمیں چھوڑ نہ دیں۔ اصل گرو وہ ہے جو اپنے شاگرد کو اپنے پیروں سے باندھنے کی بجائے تلاش پر گامزن کرے، اس کے اندر کھوجنے کی طلب پیدا کرے۔ شاگرد کہیں بھی چلا جائے مگر ایسے استاد کا علم ہمیشہ روشنی بانٹتا رہے گا۔