|

وقتِ اشاعت :   July 19 – 2022

بلوچستان میں حالیہ مون سون بارشوں نے تباہی مچاہی جس سے بہت زیادہ جانی ومالی نقصانات ہوئے جس کے تدارک کے لیے پیشگی اقدامات انتہائی ضروری تھے اور اس کے لیے حکومت کو پہلے سے منصوبہ بندی سمیت متعلقہ محکمے کو الرٹ کرکے ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تمام تر وسائل مہیا کرنے چاہئے تھے تاکہ بلوچستان کے غریب عوام کو جانی ومالی نقصانات سے بچایا جاسکتا لیکن حسب روایت ہمارے یہاں نقصانات کے بعد ہی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔

یہ یقینا ایک قدرتی آفت ہے مگر پیشگی محکمہ موسمیات کی جانب سے اطلاعات فراہم کی جاتی ہیں کہ بارش کی اسپیل آرہی ہے اور اس کا دباؤ کتنا اثرانداز ہوگا اسی کے مطابق حکمت عملی اپنانی چاہئے جب ہوگا تب دیکھا جائے گا کا معاملہ بڑا سنگین ہوجاتا ہے جو ماضی میں بھی ہمارے سامنے ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس طرح کے آفات سے نمٹنے کے لیے الرٹ رہنا انتہائی ضروری ہے۔ بہرحال بلوچستان میں بارشوں سے جہاں نقصانات ہوئے ہیں وہیں پر ایک فائدہ زراعت کے حوالے سے بھی ہوا ہے جہاں خشک سالی نے بیشتر اضلاع کو متاثر کرکے رکھ دیا تھا۔

اور بارش نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے زمینداروں کی زمینیں بنجر ہوکر رہ گئی تھیں اب ان کے لیے کاشت کاری کے حوالے سے فائدہ ہوگا کیونکہ بلوچستان کے بیشتر لوگوں کا معاش زراعت سے وابستہ ہے، پانی ہوگا تو زراعت کا شعبہ ترقی کرے گا دیگر سہولیات جو زمینداروں کو مہیا کرنا ہے وہ حکومت اور محکمے کی ذمہ داری ہے کہ کس طرح سے انہیں ریلیف فراہم کرتے ہوئے زراعت کے شعبہ کو ترقی دینے کے ساتھ زمینداروں کے مسائل حل کئے جائیں گے۔

دوسرا بلوچستان کا مسئلہ ڈیمز کا بھی ہے ڈیمزکم ہونے اور پانی ذخیرہ نہ ہونے کی وجہ سے پانی کا بڑا حصہ ضائع ہوجاتا ہے اگر بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کیاجائے اورمزید ڈیمز تعمیر کئے جائیں تو بلوچستان میں زراعت کے شعبے میں بہت بڑا انقلابی ترقی آئے گا جبکہ ساتھ ہی بلوچستان میں جو پانی کا بحران موجود ہے جس کی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح گرتی جارہی ہے اور ایک الارمنگ جیسی صورتحال ہے اس میں بھی بہتری آئے گی۔

ضروری ہے کہ پور توجہ ڈیمز پر دی جائے اور بروقت ان کی تکمیل کو یقینی بنائی جائے کیونکہ اس سے قبل بھی ڈیمز کی تعمیر کے منصوبے تشکیل دیئے گئے تھے مگر اب تک وہ نامکمل ہیں بلکہ بعض کا تذکرہ تک نہیں ہوتا ہے لہٰذا اس تمام تر صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو اپنی پالیسی بنانی ہوگی کہ کل اگروہ حکومت میں آئینگے تو اس اہم مسئلے پر اپنی توانائی صرف کرتے ہوئے بلوچستان کو زرخیز کرینگے۔

بلوچستان ہر لحاظ سے معاشی حوالے سے ایک اہم خطہ ہے مگر افسوس کہ ناقص منصوبہ بندی اور عدم توجہی کی وجہ سے بلوچستان دیگر صوبوں کی نسبت بہت پیچھے رہ گیا ہے اور اب بھی صورتحال کوئی خاص بہتر نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کو ابھی سے منصوبہ بندی کرنی چاہئے جتنا وقت اس وقت موجودہ حکومت کے پاس ہے وہ بلوچستان میں معیشت کی بہتری کے لیے مستقبل کے حوالے سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے حکمت عملی اپنائے تو یقینا آگے چل کر نتائج مثبت آئینگے جس کے لیے وفاقی حکومت سے بھی رجوع کیاجائے اور اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کے لیے مطالبات سامنے رکھیں کیونکہ دیگر صوبوں میں جس تیزی کے ساتھ مختلف شعبوں میں ترقی دیکھی جارہی ہے اس انداز میں بلوچستان میں کچھ بھی نہیں ہورہا ہے یہ سوچنا بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ انہیں مستقبل کا بلوچستان کیسا دیکھنا ہے۔امید ہے کہ سیاسی جماعتیں ان مسائل کو ایڈریس کرتے ہوئے مشترکہ طور پر اپنا کردار ادا کرینگے۔