|

وقتِ اشاعت :   October 31 – 2015

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اعلان کیا ہے کہ اگر سعودی عرب کے اتحاد اور یکجہتی کو کوئی خطرہ ہوا تو پاکستان کا رد عمل انتہائی شدید ہوگا اور ہر قیمت پر سعودی عرب کا دفاع کیاجائے گا ۔ یہ اعلان مشترکہ تربیت کے خاتمے کے بعد ایک معائنے کے دوران کیا گیا جس میں سعودی عرب کے فوجیوں نے بھی شرکت کی تھی ۔ اکثر و بیشتر پاکستانی افواج اور سعودی فورسز مشترکہ مشقیں کرتے رہتے ہیں حالیہ تربیتی مشقیں اسی تسلسل کا حصہ ہیں تاکہ دونوں مسلح افواج کے درمیان قریبی تعاون کو بڑھایا جائے ۔ اس سے قبل پاکستانی افواج سعودی فوجیوں کو تربیت دیتے آئے ہیں ایک سے زائد بار پاکستانی افواج ضرورت کے وقت سعودی حکومت کی مدد کو جاتی رہیں ہیں ۔ حالیہ دنوں میں ان کی اہمیت زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ خطے کے حالات زیادہ پر خطر بن گئے ہیں ۔ خصوصاً حوثی قبائل کا یمن کے اقتدار پر قبضہ اور قانونی حکومت کے صدر اور وزیراعظم کو پہلے گرفتار کرنا اور بعد میں ملک بدر کرنا۔ اس عمل کے بعد سعودی عرب اور پندر ہ دیگر ممالک نے عرب اتحاد بنایا تاکہ یمن میں قانونی اور آئینی حکومت بحال کریں اور حوثی قبائل جن کو ایران کی حمایت حاصل ہے ان کو اقتدار سے بے دخل کیاجائے ۔ جب یہ فوجی اتحاد بن رہا تھا تو قومی اسمبلی نے ایک قرار داد کے ذریعے اس میں شرکت سے انکار کردیا پاکستان یمن کے فوجی اتحاد میں شامل نہیں ہوا۔ اس اتحاد کی سرپرستی امریکا کررہا ہے ۔ مصر اور ترکی اتحاد کی حمایت کررہے ہیں مصر کے جنگی جہاز آبنائے عدن یا باب المندب کی حفاظت پر معمور ہیں تاکہ ایران سمندر کے راستے یمن کے باغیوں کو اسلحہ نہ پہنچا سکے مصر کے جنگی جہازوں کو امریکی بحری بیڑہ کی حمایت حاصل ہے ۔ پاکستان کے اس اتحاد میں شامل نہ ہونے پر سعودی عرب ناراض ہوگیا تھا تاہم پاکستان نے یہ یقین دہانی کرائی کہ ہر مشکل وقت میں سعودی عرب کی فوجی اور سفارتی امداد جاری رکھے گا۔ پاکستان نے خطے کی صورت حال کے پیش نظر یمن کے فوجی اتحاد میں شمولیت نہیں کی ۔ بھارت کا رویہ جارحانہ ہوتا جارہا ہے آئے دن سرحدی چوکیوں پر گولہ باری اور فائرنگ جاری ہے ۔ ادھر افغانستان سے بھی دراندازی کا سلسلہ جاری ہے ۔ خود پاکستان کے اندر افواج پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لے رہے ہیں داخلی سیکورٹی پر توجہ زیادہ ہے ۔ اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں 55ہزار افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ ان میں سے پانچ ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکار تھے ملک کو 60ارب ڈالر کا نقصان ہو ا۔ ان وجوہات کی بناء پر پاکستان نے اس بات پر اپنی معذوری ظاہر کی کہ وہ سعودی عرب کے زیر سرپرستی خلیج ممالک کے فوجی اتحاد میں شامل نہیں ہوسکتا حکومت پاکستان نے اس اتحاد کی مخالفت نہیں کی اور نہ ہی حوثی قبائل کی حمایت کی کہ انہوں نے قانونی اور آئینی حکومت کو بے دخل کرکے صدر اور وزیراعظم کو ملک بدر کردیا ۔ اس کے بعد سے سعودی عرب کے اتحاد نے یمن پر بمباری شروع کی ،ایران نے سارے عمل کو دوسرے نکتہ نظر سے دیکھا کہ پاکستان نے خلیجی ممالک کے اتحاد میں شمولیت نہیں کی جس سے ایران کے موقف کو تقویت ملتی ہے ۔ یہ غلط تشریح ہے ۔ پاکستان نے صرف اپنے ملک اور خطے کی سیکورٹی کی وجوہات سے خلیجی ممالک کے اتحاد جس کی سرپرستی امریکا اور سعودی عرب کررہا ہے، میں شرکت نہیں کی ۔ جنرل راحیل شریف کا اس موقع پر یہ بیان اس پر انے موقف کی تائید ہے کہ پاکستان نے خلیجی ممالک کے اتحاد کی مخالفت نہیں کی ، صرف سیکورٹی وجوہات کی بناء پر اس میں شمولیت سے معذوری ظاہر کی ۔