|

وقتِ اشاعت :   July 23 – 2022

ملک کے سب سے بڑے صوبے میں آئینی بحران بدستور جاری ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کا معاملہ ابھی تک مستقل طورپر حل نہیں ہواہے سیاست اپنی آب وتاب سے جاری ہے۔ پی ٹی آئی اور ان کے اتحادیوں کی اکثریت کے باوجود ایک خط نے وزیراعلیٰ پنجاب کے چناؤ کا کایا پلٹ دیا ۔ چوہدری شجاعت اور سابق صدر آصف علی زرداری کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں اور بعدازاں خط کے آنے کے بعد ایک کھلبلی مچ گئی جس میں ق لیگ کے 10ارکان کو اپنے ہی جماعت کے امیدوار چوہدری پرویزالہٰی کو ووٹ نہ دینے کے احکامات دیئے گئے ۔

چوہدری شجاعت ق لیگ کے سربراہ ہیں اسی خط کی بنیاد پر ڈپٹی اسپیکر پنجاب نے رولنگ دیتے ہوئے ووٹ مسترد کردیئے اور معاملہ دوبارہ عدالت میں چلا گیا،یہ ایک نئی سیاسی روایت چل رہی ہے کہ جو سیاسی معاملات اور پارلیمان کے مسئلے ہیں اب وہ عدالت کی نظر ہورہے ہیں بہرحال سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے اپنے پتے کھیلے جارہے ہیں اور اس وقت اقتدار اور اختیارات کی رسہ کشی چل رہی ہے مگر ساتھ ہی ملک میں سیاسی عدم استحکام اور معیشت کا حشر نشر ہورہا ہے اس بڑے بحران کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ،یہ مسائل کب تک چلتے رہینگے یہ فی الحال کہا نہیں جاسکتا مگر سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ حمزہ شہباز پیر تک بطور ٹرسٹی وزیر اعلیٰ کام کریں گے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف پرویز الہٰی کی درخواست پر سماعت کی۔ 3 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔عدالت نے حکم دیا کہ پیر تک حمزہ شہباز صرف روٹین کے امور سرانجام دیں گے۔ سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کو بطور وزیر اعلیٰ 22 جولائی سے قبل کا اسٹیٹس بحال کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پیر یا منگل کو فیصلہ سنا دیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کی ڈائریکشن کی خلاف ورزی پر رپورٹ کرسکتا ہے۔جمہوری روایت یہی ہے کہ پارلیمانی پارٹی طے کرتی ہے کہ کس کی حمایت کرنی ہے۔واضح رہے کہ چودھری پرویز الٰہی کے وکیل نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پٹیشن دائر کی تھی۔درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں ڈپٹی اسپیکر نے غیر قانونی اور غیر آئینی رولنگ دے کر مسلم لیگ ق کے 10 ووٹ شمار نہیں کئے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں وزارت اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری نے نتیجے کا اعلان کرنے سے پہلے چوہدری شجاعت کا خط ایوان میں پڑھ کر سنایا۔ جس کی بنیاد پر مسلم لیگ (ق) کے پرویز الٰہی کو دیے گئے تمام 10 ووٹ منسوخ کردیے تھے۔اس وقت سب کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں کہ تفصیلی فیصلہ میں کیاآئے گا اور کس کے حق میں جائے گا۔

اس سے قبل بھی سینیٹ انتخابات سے لے کر سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران سیاسی وفاداریاں بدلتی گئیں، اس کا نتیجہ سیاسی بحران کی صورت میں سامنے آیا اگر پہلے اس طرح نہ ہوتا تو شاید آج تمام تر سیاسی بحران کا معاملہ عدالت نہ جاتا۔ دوسری جانب قانونی ماہرین بھی یہ بات کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ سیاسی معاملات کے حوالے سے دوری اختیار کرے، سیاسی جماعتیں بھی قانونی اور آئینی کھیل کے ذریعے ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے ماہر ہیں اس لیے ان کے درمیان ہونے والی قانونی جنگ کو پارلیمان پر چھوڑا جائے مگر اب معاملات تو بہت آگے نکل چکے ہیں مگر یہ سب کچھ جواب ہورہا ہے جمہوریت ملک اور مستقبل کے لیے بہتر نہیں ہے۔