|

وقتِ اشاعت :   July 25 – 2022

نظریاتی تعریف کے مطابق، قیادت ایک فرد یا افراد کے ایک گروہ کی وہ اہلیت ہے جو انہیں عوام کو متاثر کرنے اور ان کے تجویز کردہ راستے کو درست سمجھنے پر آمادہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ سیاسی قیادت کو عمومی طور پر ایک پسندیدہ خصوصیت سمجھا جاتا ہے، ماسوائے اس صورت کے کہ جب ایک لیڈر اپنی حیثیت و مرتبے کے غرور میں اتنا بدمست ہو جاتا ہے کہ وہ خود کو اپنی جماعت یا انتخاب کنندگان کے سامنے جوابدہ قرار دینے سے انکار کر دیتا ہے۔

بعض رومانی یا فسطائی فلسفوں کے مطابق، قیادت ایک خصوصی حیثیت حاصل کر سکتی ہے لیکن عام جمہوری سیاست میں اسے سیاسی عمل کا ایک عمومی حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات کسی پارٹی کا حکمران طبقہ لیڈر تصور کر لیا جاتا ہے۔ سوویت یونین میں کمیونسٹ پارٹی اپنی اجتماعی لیڈر شپ پر زور دیتی رہی۔ بہت سے ملکوں میں، خصوصاً ایسے ممالک جنہوں نے حال ہی میں آزادی حاصل کی ہے اور جن کی جدید تاریخ میں قومیت پرستانہ جدوجہد شامل ہے، لیڈر کو عوام اور قوم کی اجتماعی شکل تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم تیسری دنیا کے ممالک میں، پائیدار سیاسی اداروں اور معاشی ترقی کی عدم موجودگی میں لیڈرشپ کو طویل عرصے تک برقرار رکھنا اکثر ایک مشکل کام ہوتا ہے۔

تیسری دنیا کے ممالک میں، رقبے کی وسعت، آبادی کے حجم اور ملک کے مختلف حصوں میں مختلف زبانیں رائج ہونے کے باوجود بھارت میں ہمیں سیاسی عمل، قیادتوں، سسٹم اور حکومتوں کی کامیابی کے تسلسل کی ایک عمدہ مثال نظر آتی ہے۔ ماہرین عمرانیات عموماً سیاسی قیادت کو ایک ’’تابع متغیر‘‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مخصوص دور اور جگہ میں ممکنہ قیادت معاشی، معاشرتی اور سماجی حالات کے تحت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ جزوی طور پر اس تعریف کو درست قرار دیا جا سکتا ہے اور سیاسی لیڈر وں کو حالات کی پیداوار قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ مفروضہ سیاسی عمل کی ایک اور حقیقت کو نظرانداز کرتا ہوا نظر آتا ہے، وہ یہ کہ بعض اوقات سیاسی قیادت ایک ’’خودمختار متغیر‘‘ کی حیثیت بھی حاصل کر لیتی ہے۔

ایسی قیادت معاشرے میں ایک عمل انگیز کا کام کرتے ہوئے معاشی، معاشرتی اور سیاسی میدانوں میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا سبب بنتی ہے۔ہوچی منھ اور مائوزے تنگ جیسے لیڈروں نے اپنے معاشروں کو ایک واضح سمت اور صورت دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ قیادت کو ایک خودمختار متغیر قرار دینے کے نظریئے پر یقین رکھنے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ تاریخ کا رخ بدلنے میں لیڈروں کا کردار فیصلہ کن حیثیت رکھتا نظر آتا ہے۔ سیاست جدید میں، سیاسی قیادت اور طرزِ حکومت کی نوعیت کو سمجھنے کے لئے، مشہور جرمن ماہر عمرانیات ماکس ویبر کی متعین کردہ درجہ بندی بے حد کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ ویبر نے یہ کلیہ اخذ کیا کہ بعض افراد محض عادت کی بناء پر سیاسی قیادت کا اتباع کرتے ہیں، بعض کسی مخصوص شخصیت سے وابستگی کی بنیاد پر ایسا کرتے ہیں اور بعض اس لئے کہ سیاسی قیادت ان کے کسی نجی یا عوامی مفاد کے حصول میں مدد دیتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں یہ تینوں طرزہائے حکومت، مختلف انداز میں نظر آتے ہیں لیکن ویبر کی تشخیص کے مطابق، ان میں سے کوئی ایک، کسی ایک معاشرے میں زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔

لہٰذا ویبر کی بیان کردہ تعریف کے مطابق ہمیں لیڈرشپ کی تین منطقی اور مثالی اقسام نظر آتی ہیں۔ ایسے افراد جو محض عادت کی بناء پر کسی روایتی قیادت کو قانونی حیثیت دیتے ہیں، ایسے افراد جو کسی پْرکشش شخصیت سے وابستگی اور اعتماد کی بناء پر اسے قانونی حیثیت دیتے ہیں اور ایسے افراد جو اپنے مفادات کی بناء پر کسی قیادت کو منطقی اور قانونی قرار دیتے ہیں۔

جدید سیاست میں، پہلی درجہ بندی پر پورا اترنے والے قائدین میں ہمیں مذہبی لیڈر، قبیلے کے سردار، بادشاہ، جاگیردار اور اس قبیل کے دوسرے افراد نظر آتے ہیں۔ دوسری درجہ بندی میں ہمیں مائوزے تنگ، سوئیکارنو، کوامے انکروما، فیڈل کاسترو، نیلسن منڈیلا، عوث بخش بزنجو اور سردار عطاء اللہ مینگل جیسی ممتاز شخصیات ملتی ہیں اور تیسری درجہ بندی میں جدید بیوروکریسی کی مختلف اشکال کے روپ قیادت و اختیار کے مراکز نظر آتے ہیں۔ ایسا عموماً ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔

آیئے ذرا دیکھتے ہیں کہ ہمارے اپنے ملک میں قیادت کی کون سی قسم زیادہ مروج و مقبول رہی ہے۔ ویبر کے بیان کردہ طرز ہائے قیادت کو درست تسلیم کرنے کے باوجود، پاکستان کے معاملے میںان میں چند ترامیم کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جاگیردار، اپنے وجود کے لئے نوآبادیاتی آقائوں کے شرمندئہ احسان تھے اور بنیادی طور پر سسٹم میں اپنی موجودگی اور کردار کے لئے ریاستی ڈھانچے پر انحصار کرتے تھے۔ اپنے ’’مقامی سیاق و سباق‘‘ میں وہ روایتی حکومت و اختیار کی نمائندگی کرتے تھے لیکن قومی سطح پر اپنی اہمیت منوانے کی اہلیت ان میں بہت ہی کم تھی۔ عموماً نوآبادیاتی حکمران اس طبقے کو اپنے اشاروں پر نچاتے تھے اور نوآبادیاتی نظام کے ختم ہو جانے کے باوجود یہ نظام العمل کم و بیش اپنی ابتدائی حالت میں آج بھی برقرار ہے۔

اسی طرح مذہبی عمائدین اور پیر حضرات اپنے لوگوں کے درمیان بے حد اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور مختلف سطحوں پر اس رسوخ کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اگرچہ ایسے قائدین نے اپنے زبان و بیان کے جواہر کے ذریعے عوام پر اثرانداز ہو کر سیاسی لیڈروں کو کافی مدد پہنچائی ہے لیکن آج تک پاکستان میں کسی مذہبی لیڈر نے اعلیٰ قیادت و اختیار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ قبائلی سرداروں کو یا تو ساتھ ملا لیا جاتا ہے یا حکومتی عوامل کی مداخلت و نفوذ کی مزاحمت کرنے کی پاداش میں مستوجب سزا ٹھہرایا جاتا ہے۔ (روایتی اقتدار، قوت کا خودمختار مرکز نہیں ہوتا۔) چونکہ پاکستان کو اپنے قیام کے ابتدائی سالوں کے دوران ہی دو اہم سیاسی شخصیات سے محروم ہونا پڑا، لہٰذا کوئی ایسی شخصیت سامنے نہ آ سکی جو اپنی کشش کی بدولت پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر اثرانداز ہو سکتی۔

بعد ازاں، ایک کرشماتی شخصیت کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو کی لیڈرشپ سامنے آئی۔ ان کی کوششیں ’ممکنات کے فن کی حیثیت سے سیاسیات کی جانب جانے والی درست راہ پر اگرچہ ایک قدم تھی لیکن ان کے دورِ حکومت کے اختصار نے پاکستانی نظامِ حکومت پر کہیں زیادہ دور رس اثرات مرتب کئے۔ جہاں تک ویبر کی بیان کردہ تیسری حکومتی قسم یعنی منطقی قانونی طرزِ حکومت کا تعلق ہے، ہمارے ملکی سیاق و سباق میں بیوروکریسی کی موجودگی کو ویبر کے نظریئے سے یکسر مختلف انداز میں دیکھنا پڑے گا۔ نوآبادیاتی حکمرانوں نے سول اور ملٹری اداروں کو بنیادی طور پر اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لئے قائم کیا تھا۔

یہ امر باعث دلچسپی ہوگا کہ سول بیوروکریسی نے اپنے قیام کے مقاصد بڑی خوش اسلوبی سے پورے کئے اور یہاں قیام کے 150 سالوں کے دوران نوآبادیاتی حکمرانوں کو کبھی پورے ملک میں مارشل لاء لگانے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ جن عقائد و نظریات پر بیوروکریسی کے اس قلعے کی بنیاد رکھی گئی تھی، انہیں ایک ’’آزاد ملک‘‘ کی ضروریات اور توقعات کے مطابق تبدیل کرنے کی ضرورت کبھی محسوس نہ کی گئی۔ درحقیقت، مختلف عوامل کے زیراثر بیوروکریسی اپنے کردار کو وسعت دیتی رہی اور مارشل لاء پاکستان میں ایک معمول بن کر رہ گیا۔ سول اور ملٹری بیوروکریسی بار بار مسند اقتدار پر پر قابض ہوتی رہی اور ایسا کرنے میں منطقی قانونی طرزِ حکومت کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کر گئی۔

(قوت و اختیار کے حقیقی حاملین کی حیثیت سے بیوروکریسی کے کردار کو خصوصی پاکستانی سیاق و سباق میں سمجھنا ہوگا)۔ ہمیں ویبر کے پیش کردہ مثالی طرز ہائے حکومت سے پرے ہٹ کر پاکستانی سیاسی تھیٹر کے اصولوں کے مطابق چلنا ہوگا تاکہ ہم بڑے سیاسی لیڈروں (درحقیقت حکمرانوں) کی شناخت کر سکیں۔ پاکستان کو وائسریگل سسٹم ورثے میں ملا اور 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ میں ترمیم کے بعد اسی نظام نے کام کرنا شروع کر دیا۔ ابتدائی سالوں میں، مغربی پاکستان میں تین حکومتیں برطانوی آئی سی ایس افسران نے تشکیل دیں۔ مشرقی پاکستان میں ’’چیف سیکرٹری‘‘ گورنر جنرل کے نمائندے کی حیثیت سے منتخب وزیراعلیٰ کی سرگرمیوں کی نگرانی کیا کرتا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ برطانوی راج کے معمولات اب بھی برقرار تھے۔

دو بڑے سیاسی لیڈروں کی رحلت کے بعد، بیوروکریسی اس پوزیشن میں آ گئی کہ دوسروں کو اپنے اشاروں پر نچا سکے۔ 1951ء سے 1956ء کے دورانئے میں، غلام محمد (بیورو کریٹ) آئے جنہوں نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی، چوہدری محمد علی (بیورو کریٹ) آئے جنہوں نے 1956ء کا آئین پیش کیا، سکندر مرزا (بیورو کریٹ) آئے جنہوں نے ایوب خان کو مارشل لاء لگانے کا موقع دیا اور ایوب خان (فوجی بیورو کریٹ) آئے جنہوں نے اکتوبر 1958ء میں اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ صاف نظر آتا ہے کہ 50ء کی دہائی میں کلیدی عہدوں پر فائز بیوروکریٹ اقتدار میں رہے اور وہی ایسے فیصلے کرنے کے سب سے بڑے ذمہ دار تھے جنہوں نے ملکی مستقبل پر دوررس اثرات مرتب کئے۔ ان بیوروکریٹس کے پاس اقتدار تو تھا لیکن سیاسی قیادت کے حامل ہونے کے ضمن میں ان کا دعویٰ خاصا مشکوک تھا۔ چوہدری محمد علی کبھی کسی گروہ یا گروہوں کے لیڈر نہیں رہے نہ ہی نظامِ اسلام پارٹی کی مرکزی قیادت نے کبھی انہیں اپنا لیڈر تسلیم کیا۔ چونکہ یہ بیوروکریٹ کسی طرح سے بھی سیاسی قوتوں کے نمائندہ نہیں تھے، اس لئے انہیں پاکستانی سیاست کے ڈھانچے سے غیرمتعلق قرار دے دیا گیا۔

60ء کی دہائی میں ملٹری بیوروکریٹس کی حکمرانی رہی جنہوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اہم ترین فیصلے کئے۔ ایوب اور یحییٰ دونوں کے پاس بے پناہ قوت و اختیارات تھے لیکن انہیں سیاسی لیڈر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ضیاء کا دورِ حکومت بھی ایک ایسے ملٹری بیوروکریٹ کا دورِ حکومت تھا جس نے 1973ء کے آئین کے تحت قائم ہونے والے سیاسی نظام میں خلل اندازی کی۔ محمد خان جونیجو محض ضیائکے ہاتھوں برخواست ہو کر گھر جانے کے لئے وزیراعظم بنے۔ 1988ء کے انتخابات کے نتائج نے غلام اسحاق خان (بیوروکریٹ) کو ملک کا صدر بنوایا۔ آٹھویں ترمیم کی پشت پناہی اور اعانت کے ذریعے، انہوں نے اسمبلیاں توڑیں اور وزیراعظم کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں، محترم نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی حکومتیں بھی تحلیل کی گئیں اور بالآخر 1999ء میں فوج نے پرویز مشرف کے زیرسربراہی دوبارہ اقتدار سنبھال لیا۔

اس کے بعد 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے نتیجے میں عوامی جذبات کا ایک طوفان اٹھا جس نے جنرل پرویز مشرف کی حکومت کو ختم کر دیا اور پاکستان میں ایک مرتبہ پھر جمہوری حکومت قائم ہوئی۔ اگرچہ پاکستان کے منظرنامے پر ابھی کوئی ایسا لیڈر نمایاں نظر نہیں آتا جو پوری قوم کو ایک جھنڈے تلے متحد کر سکے تاہم بعض ایسی مثالیں موجود ہیں اگر پرویز مشرف نواب اکبر خان بگٹی کو شہید نہیں کرتے تو ممکن تھا آج وہ بلوچوں کو ایک سیاسی ایجنڈے اور جھنڈے تلے متحد کرسکتے تھے۔ لیکن پرویزشرف کے اس احمقانہ اقدام سے ملک میں انتشار کا لاوا پھٹ گیا جو آج تک ریاستی مظالم کے باعث مزید آگ پکڑتا جارہا ہے۔یہ کسی ایک فرد کی رائے نہیں بلکہ پورا بلوچستان چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ بلوچستان نمائندگی سے خالی ہے۔

گوادر کے حالیہ مظاہرے میں تو لوگوں نے بلوچستان کی مصنوعی قیادت کو معتوب ٹھہراہا۔ زیارت میں فیک انکائونٹر کے خلاف کوئٹہ مظاہرین پر تشدد اور آنسوگیس شیلنگ کے بعد لوگوں میں بلوچستان حکومت کے خلاف غم و غصہ سرایت کرگیا ہے۔ چونکہ بلوچ ننگ و ناموس کو روندنا بلوچ لیڈروں کے لئے شاید کوئی زیادہ دردناک نہ ہو لیکن اس دلخراش واقعے کے فوری بعد لوگوں کا حکومت سے اس طرح کی ردِعمل کی توقع نہیں تھی۔ میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ بلوچستان حکومت ایک خاص طبقے سے تعلق رکھنے والے نمائندوں کا تشکیل کردہ ایک مصنوعی گروہ ہے۔ جسے عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں بلکہ انہیں صرف بلوچستان کے وسائل لوٹنے کے لئے لایاگیا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کسی قوم کے قسمت کا فیصلہ کرنے اور قوموں کو ترقی کی جانب گامزن کرنے میں لیڈرشپ کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ بلوچستان کی تاریخ میں یوں تو کئی لیڈر آئے اورگئے لیکن چند ایک ایسے تھے جو مر کر بھی ہمارے درمیان زندہ ہیں۔

بلوچستان کے لوگ آج ان حقیقی لیڈروں سے محروم ہیں جن میں بابا مری، شہید نواب اکبر خان بگٹی، سردار عطاء مینگل، میر غوث بخش بزنجو* عبدالعزیز کرد، یوسف عزیز مگسی جیسے محترم اساتذہ بھی سرِفہرست ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کا حکومت پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ چونکہ حکومت بذات خود بے بس اور لاچار ہے اور یہ بات اب سب کے سامنے عیاں ہوچکی ہے۔ بلوچستان میں آئین نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں، اس لئے بلوچوں کو پرامن احتجاج کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ یہاں تو آئین کے محافظ ہی آئین کی دھجیاں اڑارہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ان بے حس اور مسلط کردہ لیڈروں سے کو ئی توقع بھی نہیں۔

بلوچ سیاسی جدوجہد میں لیڈرشپ کا مسئلہ سب سے اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ بلوچ قومی جدوجہد میں سیاسی پارٹیوں کی طرف سے کوئی موثر موقف اور اقدامات نظر نہیں آتے۔ اگر یوں کہیں کہ آج بھی بلوچستان میں “پارلیمانی سرداری نظام” رائج ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ جو اسمبلی اور پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں سب کے بیک گرائونڈ دیکھیں تو موروثی سیاست کی بدولت آج وہ ان سیٹوں پر براجمان ہیں۔ خانِ قلات کے دورِ سے جو کہی دہائیوں سے سرداری نظام رائج تھا بلوچستان میں آج بھی وہی نظام چل رہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اسے بظاہر جمہوری نظام ظاہر کیا جارہا ہے جبکہ جو حرکتیں اور جس کے ماتحت بلوچ سیاسی رہنما ہیں وہ خانِ قلات کے ادوار میں سردار برطانوی حکومت کے ماتحت ہوتے تھے اسی طرح کا حال موجودہ بلوچستان کا ہے فرق صرف چہروں اور اداروں کا ہے۔

تاریخ میں اگر جھانک کر دیکھا جائے تو اس وقت کے چند ایک سردار بھی اتنے بے حس اور مردہ ضمیر نہیں تھے جتنے آج کے حکومتی سردار ہیں۔ بلوچستان کے لوگ کس سے شکوہ کریں ؟ حکومت کا ریموٹ کنٹرول تو کسی اور کے ہاتھوں میں ہے۔ جب چاہا دبا دیا جیسے چاہا کروادیا۔ اب صاحبان نے دوبارہ چینل بدل کرکے چیک پوسٹیں بحال کرنے کا عندیہ دیا ہے اور بارڈر بند کرنے کی دھمکی بھی ۔ لیکن سوال تمام اسمبلی میں بیٹھے ممبران سے بنتاہے کہ اگر آپ اتنے ہی بے بس اور لاچار ہیں پھر استعفیٰ کیوں نہیں دیتے ،ہم نہیں کہتے کہ اسمبلی سے استعفیٰ دیں موصوف جو وزارتوں پر براجمان ہیں اگر وہ بلوچ قوم کے لئے دردِ دل رکھتے ہیں تو اپنے وزارتوں سے استعفیٰ دے دیں۔ اس میں ان کی عیش و عشرت کی زندگی بھی رہے گی اور کچھ فرض ادا کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹ بھی ٹل جائے گی۔ لیکن یہ زحمت کرے کون؟