|

وقتِ اشاعت :   July 28 – 2022

ہمارا ملک پاکستان تاریخ کے ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ معیشت دن بدن گرتی جا رہی ہے، تیل کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، ڈالر کی اونچی اڑان قابو میں نہیں آ رہی، زر مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔ مہنگائی نے غریب عوام کو روندھ کے رکھ دیا ہے،ان میں قوت خرید باقی نہیں رہی، آئی ایم ایف مزید قرض دینے سے ہچکچا رہا ہے ۔ ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں۔اگر خدا نخواستہ ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے

پھر آپ کومعلوم ہے کیا ہوگا، ایک افراتفری کا ماحول پیدا ہوگا۔جس کو سنبھالنا مشکل ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں بارشوں کی وجہ سے سیلابی صورتحال ہے، لوگ بے یار مدد گار ڈوب کر مر رہے ہیں،سیلاب کی وجہ سے سڑکیں اور انفراسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے ، مگر ہمارے ملک کے جو رہنما ہیں جن کا کام بحرانوں سے ملک کو نکلالنا ہے،مگر ہماری بد قسمتی کی انتہا ہے کہ وہ اس وقت اپنے سیاسی رسہ کشیوں میں مصروف ہیں۔اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ گھر کے کسی کونے میں آگ لگی ہو اور وہ گھر والے سارے کھیل کود اور شغل میلہ میں مصروف ہوں۔
ہمارا ملک ان کے باسیوں کیلئے قدرت کی طرف سے ایک تحفہ ہے ، بہترین جغرافیہ، بہترین موسم اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اگر نہیں ملا تو اچھا اور ملک دوست لیڈر نہیں ملا، اگر کوئی ملک دوست لیڈر ہے بھی تو ان کو آگے نہیں لایا گیا۔اقتدار چند گنے چنے خاندانوں کے گرد گھوم رہا ہے۔اگر عمران خان سیاست میں آیا ہے تو وہ آپ سب کو معلوم ہے کس طرح آیا، ان کے ساتھ بھی وہی چہرے تھے جو پہلے ادوار میں ملک کو لوٹتے رہے ہیں۔ وہی شیخ رشید تھے جو جنرل پرویز سمیت ہر کسی کے ساتھ رہے جو اقتدار میں آیا۔ وہ شیخ رشید جب الیکشن نزدیک آتا ہے تو انھیں نالہ لئی کی تعمیر یاد آتی ہے۔

اس کے ساتھ وہی شاہ محمود قریشی ہیں جو کبھی پیپلز پارٹی کا روح رواں ہوا کرتے تھے۔ کس کس کی بات کی جائے عمران کے حکومت چلانے میں مرکزی کردار انہی کا تھا جو اقتدار کے نشئی تھے ۔
ہمارے ملک کے سیاسی لیڈروں کی ذاتی انا، ضد اور اقتدار کی حوس نے 1971 میںملک کو دو ٹکڑے کر دیا ۔اس وقت بھی یہی اقتدار کی حوس تھی جس کی وجہ سے شیخ مجیب کو اکثریت ہونے کے باوجود اقتدار نہیں دیا گیا۔ اگر اس وقت کے لیڈران ملک و قوم کے مفاد کا سوچتے اور اپنی ذاتی انا، ضد اور اقتدار کی حوس کاشکار نہ ہوتے تو شاید ملک دو ٹکڑے ہونے سے بچ جاتا۔ انسان تاریخ سے سبق سیکھتا ہے اپنی اصلاح کرتا ہے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ہمارے سیاستدانوں نے ہوش کے ناخن نہیں لیئے اب بھی ان کے اندر وہی پرانی خباثتیں موجود ہیں ۔
موجودہ حالات آپ کے سامنے ہیں۔ اب بھی ملک و قوم کے مفاد کے بارے میں ہمارے سیاستدان نہیں سوچ رہے ہیں۔ وہ شاید یہ بھول رہے ہیں ملک ہے تو آپ ہو ،آپ کی سیاست ہے آپ کی شاہانہ زندگی ہے۔ اگر خدا نخواستہ ملک کو نقصان پہنچتا ہے تو نا آپ رہینگے نا آپ کی سیاست رہے گی نا ہی آپ کی یہ شاہانہ طرز زندگی رہے گی۔
اس دور حکومت کی بات کی جائے تو اگر عمران کو تبدیل کرنے فضاء بن گئی تھی، ان کے اراکین نے ان کا ساتھ چھوڑ کر تحریک عدم اعتماد کا حصہ بن گئے تھے یہ الگ بحث ہے کہ وہ عمران سے الگ ہوئے تھے یا الگ کرایا گیا تھا، بظاہر ان کا ساتھ چھوڑ گئے تھے تو عمران خان اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیتے یا پھر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے دیتے مگر ہمارے سیاستدانوں کے اندر تو اخلاقیات ہے ہی نہیں اس لئے انھوں نے مزاحمت کا راستہ اپنایا جن کا انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سوائے بد نامی اور جگ ہنسائی کے۔ گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں وہی ذاتی ضد اور ہٹ دھرمی والا کھیل کھیلا گیا۔

حمزہ شریف کے چوہدری شجاعت حسین کے خط کے ذریعے ق لیگ کے اراکین کے ووٹوں کو ضائع کرایا گیا۔ حالانکہ چوہدھری شجاعت حسین ایک تجربہ کار اور زیرک سیاستدان سمجھے جاتے ہیں معلوم نہیں وہ کس طرح زرداری کے بہکاوے میں آگئے۔ اب سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کو غلط قرا دے کر حمزہ شریف کی حکومت کو ختم کر دیا اور چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں ۔اب صورتحال یہ ہے کہ مرکز میں ن لیگ کی حکومت ہے جبکہ پاکستان کے بڑے صوبے پنجاب میں عمران خان کی حمایت یافتہ حکومت ہے اور سرحد میں بھی عمران خان کی حکومت ہے۔ انہی حالات میں سیاسی استحکام یا قائم رہنا بہت مشکل ہے بلکہ مزید بگڑنے کے امکانات ہیں اور حالات خرابی کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ذاتی مفادات ، ہٹ دھرمی اور اقتدار کے نشے نے ہمارے لیڈروں کو اندھا کر دیا ہے اور اخلاقیات کی نام کی کوئی چیز ان کے اندر موجود نہیں ۔اب اس حد تک جا رہے ہیں کہ اگر ملک و قوم کا نقصان ہوتا ہے تو ہونے دو مگر اقتدار دوسرے کو دینا نہیں یا اقتدارہر گز چھوڑنا نہیں۔ یہ بھی ان کو معلوم ہے اس وقت ملک تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے، پھر بھی وہ اپنے سیاسی دھینگا مشتی میں مصروف ہیں۔ ان کے اس طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے ملک و قوم کی ترقی کا گمان رکھنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ بس ہمیں زیادہ استغفار اور دعائوں پر زور دینا چاہئے تاکہ اللہ تعالٰی ہی ہمارے حالات پر رحم کرے اور ملک وقوم کسی بڑے نقصان سے بچ جائے ۔ آمین