بلوچستان میںمون سون کی بارشوںسے ایک کے بعد دوسرے ضلع میں تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ دو روز سے مستونگ میں سیلابی ریلوں نے تباہی مچادی ہے، تین نوجوان برساتی ریلے کی نذر ہوگئے۔ متعدد مکانات تباہ ہونے کے علاوہ انگور سمیت دیگر کھڑی فصلیں اور باغات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث ضلع مستونگ میں تباہ کاریاں جاری ہیں تحصیل کردگاپ کے علاقہ گرگنہ مل سرپرہ میں سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے تیسرے نوجوان کی لاش نکالی گئی ہے، بہہ جانے والے دیگردو کی لاشیں گزشتہ شب علاقہ مکینوں نے لیویز فورس کی مدد سے نکالی تھیں۔جاں بحق ہونے والے افراد میں ایک لیویز فورس کا اہلکار بھی شامل ہے۔
کردگاپ کے علاقے میں سیلابی ریلے مختلف مقامات سے اب بھی گزررہے ہیں جس سے مختلف راستوں اور سڑکوں پر آمد و رفت منقطع ہوگیا ہے جس سے ریسکیو کے کام میں انتظامیہ کو مشکلات کا سامنا ہے۔ گزشتہ دوروز سے پورے ضلع مستونگ میں موسلادھار طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں نے تباہی مچادی ہے حفاظتی بندات ٹوٹنے سے سیلابی پانی آبادیوں میں داخل ہوگیا ہے جس سے متعدد کچے مکانات کو نقصان پہنچا ہے اور بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ زمینداروں کے مطابق بارش اور ریلوں نے کھڑی فصلات کو شدید نقصان پہنچا یاہے ۔بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے دشت گوران میں ایک ہی خاندان کی تین بچیاں پانی میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئیں۔ دوسری جانب لسبیلہ، جھل مگسی کچھی نوشکی اور پنجگور سمیت دیگر متاثرہ اضلاع میں صورتحال بدستور خراب ہے ،کئی شہر قصبے اور دیہاتوں میں پانی جمع ہے رابطہ سڑکیں بحال نہیں ہوئیں۔ خوراک اور پینے کے صاف پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے جس سے لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
پی ڈی ایم اے حکام کے مطابق ہنگامی بنیادوں پر ریسکیو اور ریلیف آپریشن کا عمل جاری ہے لوگوں کو امدادی سامان کی فراہمی کے علاوہ محفوظ مقامات پر منتقل کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے بارش اور سیلاب سے متاثر ہونے والے گھروں کیلئے امداد کا اعلان کیا ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف نے بلوچستان کے سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ علاقوں کا فضائی دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ میں سیلابی پانی جھل مگسی کے گا¶ں میں دیکھ کے آیا ہوں جہاں 8 سے 10 فٹ پانی کھڑا تھا اور لوگوں کے مال مویشی سیلابی پانی میں بہہ گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جھل مگسی میدانی علاقہ ہے اس لیے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ کوئٹہ، چمن، لسبیلہ، قلعہ عبداللہ اور لورالائی سمیت کئی علاقوں میں تباہی ہوئی ہے۔ بارشوں سے 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر بحالی کا کام کرے گی، اسلام آباد میں بھی 4 دن پہلے اس حوالے سے میٹنگ کی تھی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 300 سے زائد لوگ بارشوں سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جن کا گھر کچا ہویا پکا مکمل طور پر تباہ ہوا ہے تو انہیں 5 لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔
جن کے گھر کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے انہیں 2 لاکھ روپے فراہم کیے جائیں گے۔وزیر اعظم نے کہا کہ مال مویشی اور فصلوں کے نقصان کے جائزہ کے لیے کمیٹی بن گئی ہے اور کمیٹی میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہے۔ سڑکوں اور پلوں وغیرہ کو پہنچنے والے نقصانات کا صوبوں سے مل کر ازالہ کریں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں اور خاص طور پر گوٹھ علی مردان شمبانی کا بھی فضائی دورہ کیا۔ چیف سیکرٹری بلوچستان نے وزیراعظم کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں پر بریفنگ دی۔
اس سے قبل وزیر اعظم کو نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی حکام، چیف سیکرٹری بلوچستان نے اور لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز نے وزیر اعظم کو بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر بریفنگ دی۔بلوچستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب نے بہت زیادہ نقصانات پہنچایا ہے شکر ہے کہ ملکی سیاست جو اس وقت اقتدار کی رسہ کشی کے حوالے سے چل رہی تھی اور اس تباہی پر کسی طرح کی توجہ نہیں دی جارہی تھی، وزیراعظم میاں محمدشہباز شریف نے دورہ کرکے زخموں پر مرہم رکھنے کی ایک اچھی کوشش کی ہے مگر اس امید کے ساتھ بلوچستان کے متاثرین کوتنہا نہیں چھوڑاجائے گا جو نقصانات ہوئے ہیں ان کا ازالہ کرتے ہوئے بحالی کے حوالے سے بھی عملی اقدامات جنگی بنیادوں پر اٹھائے جائینگے تاکہ پھر دوبارہ آواران اور دکی کے زلزلہ متاثرین کی طرح ان کی دادرسی صرف بیانات تک محدود نہ رہے اور غریب صوبے کے عوام دربہ در ہوجائیں لہٰذا بلوچستان کو ترجیح دی جائے اور ریلیف ہنگامی بنیادوں پر ہوناچاہئے تاکہ متاثرین کے دکھوں کا مداوا ہوسکے۔