جب سے برطانیہ بلوچستان پر حملہ آور ہوا اور بلوچستان پر فوجی قبضہ ہوگیا ۔ اس دن کے بعد سے بلوچ مزاحمت کا آغاز ہوگیا ۔ برطانیہ براہ راست بلوچستان پرحملہ آور ہوا اور اس پر قابض ہوگیا چونکہ برطانیہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی قوت تھی ا س لئے پسماندہ بلوچستان اور اس کے چند بندوق بردار سپاہیوں کو شکست دینا کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔ برطانیہ کو بلوچ عوام پر غصہ اس وقت آیا جب پہلی افغان جنگ کے بعد برطانوی تمام سپاہیوں پر راتوں رات حملے ہوئے اور سب کے سب ہلاک ہوگئے ۔ برطانیہ کو توقع تھی کہ افغانوں کے خلاف جنگ میں بلوچ ان کی حمایت کریں گے مگر ایسا نہیں ہوا اس وجہ سے غصہ زیادہ رہا اور آئندہ سو سال تک شدت کے ساتھ جاری رہا بلکہ اسی غصے کو ورثے میں پاکستانی حکمرانوں کے حوالے کیا ۔ سرزمین پر قبضے کے خلاف مزاحمت کرنا بلوچوں کا قومی اور انسانی حق ہے جو انہوں نے استعمال کیا ۔ابتدائی دنوں کے بعد بلوچوں کی قومی قیادت نے دل و جان سے پاکستان کی ریاست کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ انہوں نے اس کا حلف بھی اٹھایا ۔ وہ گورنر ‘ وزرائے اعلیٰ ‘ وفاقی وزیر ‘ قومی وصوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حلف وفاداری اٹھا چکے تھے۔ 1970ء کے انتخابات میں بلوچ قوم پرستوں نے تین چوتھائی اکثریت حاصل کی اور پہلی منتخب جمہوری حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا مگر عملاً مقتدرہ نے اس مقبول ترین حکمرانی کو تسلیم نہیں کیا ۔زبردست سازشوں کے بعد اس حکومت کو برخاست کیا گیا اور پی پی پی کی حکومت بنائی گئی ۔ پی پی پی نے 1970ء کے انتخابات میں صرف ایک نشست حاصل کی تھی ۔ خرابی صرف اور صرف اس وجہ سے پیدا ہوگئی کہ بلوچ قوم پرست رہنماؤں کو دیوار سے لگایا گیا اور پے درپے فوجی قوت کا بے دریغ استعمال کیا گیا ۔ یہ پانچویں بار ہے کہ فوجی قوت کا استعمال ہورہا ہے ۔ بلوچستان میں جمہوری عمل میں نہ صرف رخنہ ڈالا گیا بلکہ قومی حقوق کے حصول کی تحریک کو غلط رنگ پہنانے کی ناکام کوشش کی گئی روایتی اور تاریخی طورپر بندوق لے کر پہاڑوں پر جانا ایک احتجاج سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا لیکن اس کے برعکس ریاست نے کئی بار بے دریغ فوجی قوت کا استعمال کیا ۔ شاید اسی وجہ سے کمانڈر نے اب یہ کہہ دیا کہ بلوچستان میں بغاوت Insurgencyنہیں ہے دوسرے الفاظ میں اس کو ختم کردیا گیا ہے یا کچل دیا گیا ہے ۔ اس کے بعد ریاست پاکستان کی توجہ بلوچستان کی تعمیر اور ترقی پر ہے جس کا عمل شروع کردیا گیا ہے اور بڑے پیمانے پر۔ شاید اسی وجہ سے بلوچستان کی شاہراہوں اور سڑکوں پر این ایچ اے یا نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے وزیراعظم کے لئے ایک خصوصی بریفنگ کا انتظام کیا تھا جس میں وزیراعظم نے بلوچستان کی ترقی کیلئے اہم ترین اعلانات کیے ۔ اسی تناظر میں کمانڈر سدرن کمانڈ نے بھی میڈیا پرسنز کے ساتھ پہلی ملاقات میں بلوچستان کی صورت حال پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مری معاہدہ پر عمل درآمد حکومت کاکام ہے ۔ وزیراعظم ہی اس کا فیصلہ کریں گے۔ ا س معاملے میں وہی مقتدر اعلیٰ ہیں ۔ مستقبل قریب میں بلوچستان میں جمہوری اداروں کو مستحکم اور معاشی ترقی کے عمل کو تیز تر کرنا ہے ۔ اس سلسلے میں صوبائی اور وفاقی وسائل کا صحیح استعمال شامل ہے ۔ ممکن ہے کہ آئندہ ایم پی اے حضرات کے ترقیاتی فنڈ جو سالانہ کروڑوں میں ہیں ان کو بلوچستان کی مربوط ترقی کے عمل میں استعمال کیا جائے گا ۔یہ تاثر عام ہے کہ ایم پی اے ترقیاتی فنڈ اکثر اوقات ’’ پاکٹ منی ‘‘ سمجھا جاتا ہے ۔ یہ ان کا ذاتی فنڈ ہے ریاست یا حکومت یا عوام اس پر کوئی حق نہیں رکھتے۔ چونکہ گزشتہ تیس سالوں میں ان کا مناسب استعمال نہیں ہوا اس لئے حکومت اور ریاست پر عوام کا دباؤ بڑھ گیا ہے کہ اس فنڈ کو بلوچستان کی مربوط ترقی کے لیے استعمال میں لایا جائے۔ دوسرے الفاظ میں ساٹھ ارب صوبائی اور پچاس ارب وفاقی رقوم 110ارب روپے سالانہ بلوچستان کے بنیادی ڈھانچے سے لے کر معاشی منصوبوں پر عمل درآمد کراسکتے ہیں ۔ بغاوت کے خاتمے کے بعد حکومت کا منصوبہ ہے کہ بلوچستان کی ترقی کو مربوط انداز میں مکمل کیا جائے تاکہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس سے مستفید ہوں ۔
بلوچستان اور بغاوت
وقتِ اشاعت : November 7 – 2015