زندگی سے اگر قدرتی مناظر کو جدا کیا جا ئے تو یقیناًزندگی کی خوبصورتی برقرار نہیں رہ سکتی۔ کسی کامقولہ ہے کہ صبح اٹھتے ہی اگر آپکی نظریں سبزہ زار پر پڑ جائیں تو یقیناًآپکے دماغ کے دریچے کھل سکتے ہیں اور آپ کھل کھلا سکتے ہیں۔ تو یعنی انسان اور ان شجروں کا رشتہ صدیوں پرانا ہے اسی رشتے کو برقرار رکھنے کے لئے مہذب قوموں نے انکی بقاء کے لئے جدو جہد کی ہے اور عملی جدو جہد کی ہے۔ اور ماحول کو خوشگوار بنانے کے لئے اور اسے پروان چڑھانے کے لئے درختوں کو اگانے کا کام کیا ہے۔
ایک دن راہ چلتے چلتے اچانک میری نظر ایک ایسی درخت پر پڑی جو کہ کہ مکمل خشک ہو چکا تھایا کہ ضرورت محسوس نہیں کرتے ہوئے اسکی شاخیں کاٹ کر خوبصورتی اس سے چھین لی گئی تھی۔ قدرت بھی زمینوں کی شباہت کو دیکھ کر وہاں کی موسموں کے مطابق خودرو درختوں کا قیام عمل میں لاتا ہے بھلا کیا ضرورت ہے اسے کاٹنے کی۔ کیا انسانی ضروریات اتنی بڑھ چکی ہیں۔ کہ سرسبز درختوں کو تہس نہس کیا جائے نہیں ہر گز نہیں بس خوہشات کے ہاتھوں مجبور ہیں یہ انسان۔ آج میری نظر ایک ایسی درخت پر پڑی تھی جسے انسانی ہاتھوں نے اجاڑ کرکے رکھ دیا تھا۔ پھر مجھے چانک یاد آیا۔ ارے اس درخت سے تو میری پرانی یادیں وابستہ ہیں۔ پھر میں انہی یادوں میں کھو گیا۔ یقیناً20 یا22 سال پرانی یادیں۔ بچپن تو یادوں کا سمندر ہوتا ہے بچپن میں انسانی زہن ہر قسم کی خیالات سے آزاد ہوتی ہے پھر انسان کی یادداشت سے بچپن کے دنوں کی یادیں جانے کا نام نہیں لیتیں۔ یہ درخت جسے بلوچی زبان میں ’’ کبڈ‘‘ کا
نام دیا جاتا ہے خدا جانے اسکا اور زبانوں میں کیا نام ہوگا۔ قدرتی خودرو درخت گرمیوں کے موسم میں ایک مخصوص قسم کا میوہ بھی یہاں کے مکینوں کو بلاتکلف فراہم کرتا ہے۔ اسکے علاوہ دیگر میوے کی درختوں میں ’’جگر‘‘، ’’کلیڑ‘‘ بھی شامل ہیں۔ کبڈسے پرانے ادوار میں حکمت کا کام لیا جاتا تھا۔ اس کے پتوں اور خشک انار کو پیس کر بدہضمی کے شکار لوگوں کو دے کر اس سے استفادہ حاصل کیا جاتا تھا۔ یہ میں پرانے زمانے کی بات کر رہاہوں شاید میری ان باتوں سے نئے نسل کے نوجوانوں کو ہنسی آجائے۔ مجھے اچھی طریقے سے یاد ہے پھر مزے کی بات یہ کہ اس درخت سے ایک میوہ جو کہ جون جولائی میں پیدا ہو تی ہے جسے مقامی زبان میں ’’پیرو‘‘ کہا جاتا ہے اس میوے سے اس درخت کی شاخیں لدی جاتی ہیں۔ اور ہم بچپن کے زمانے میں مزری سے بنے چھوٹے چھوٹے گلاس جسکے دونوں کناروں پر مزری سے بنی ہلکی سی رسی باندھ دیا جاتا تھا جو کہ اس گلاس کو گلے سے لٹکانے کا کام کرتی تھی اور ہم تھے بس صبح ہوتے ہی اس میوے کی تلاش میں درختوں کا رخ کرتے بس قد میں چھوٹا سا درخت منتخب کرکے اس پر چڑھ جاتے تھے اور میں اس لئے چھوٹے درخت کا انتخاب کرتا تھا کہ مجھے اونچے درختوں پر چڑھنے سے ڈر لگتاتھا اور اسکا میوہ چننے کا کام کرتا۔
کتنا ظالم ہے یہ انسان جس نے جنگلات و جنگلی حیات کی دنیا اجاڑ کر اپن�آپکو آباد کرنے کا کام لیا جنگلی حیات کا پیچھا پہاڑوں تک کرکے اسکی نسلوں کو تباہ کر دیا۔ انسان اور بے زبانوں کا رشتہ کہیں پرانا ہے لیکن زیادہ تر یہ انسان کے مظالم اور عتاب کابے تحاشا شکاررہے۔ اسلئے جنگلوں اور پہاڑوں میں مقیم
ٹانگوں کے سہارے چلنے والے یہ جانور کہیں بھاگ کر پناہ لینے میں کامیاب رہے لیکن بے زبان اور بغیر پاؤں کے یہ درخت انسانی ظلمت کا شکار بنے اور صدیوں سے بنتے چلے آرہے۔ تحصیل جھاؤ جنگلی حیات یعنی جانور اور درختوں کا ایک بہت ہی وسیع مسکن ہوا کرتا تھا۔ آبادی کم اور انکا تناسب بہت زیادہ تھا بے تحاشا شکار نے مختلف نسل کے جانور نایاب کر دیئے۔ جن میں خرگوش، ہرن، چیتا، تیتر، بٹیر غرض ہر نسل کے جانور دستیاب تھے۔ اور کچھ ایسے مقامات ہیں جنکے نام انہی جانوروں پر رکھے گئے ہیں جیسا کہ ہفتاری کوہ وغیرہ۔ اسکے ساتھ ساتھ چھوٹے پیمانے پر خودرو جنگلات بھی پائے جاتے تھے انہی جنگلات اور جنگلی حیات کی موجودگی بارشوں کے زیادہ ہونے کے اسباب تھے۔ اکیسویں صدی نے جہاں بہت سی تبدیلیاں لائیں صنعتی انقلاب کے طور پر یہاں کے مکینوں نے درختوں کی کٹائی کا کام بڑے پیمانے پر شروع کر دیا تو بارشوں کا سلسلہ بھی رک گیا۔ اور جنگلی جانور اور پرندے پہلے سے ہی انسان شکارگاہوں کی منصوبہ بندی میں آکر لقمہ اجل ہو گئے تھے یوں ان حیوانوں کی قلت سے انکے فضلات سے درختوں کی پیدائش اور بارشوں کے سبب ان فضلات کے اندر پائے جانے والے بیجوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی رک گئی تو لامحالہ موسمیاتی بحران پیدا ہونا ہی تھا۔ اور مستقبل کے نسلوں کے لئے ایک خطے کی گھنٹی موجودہ نسل نے عیاشیوں کی صورت میں پیدا کر لیا۔ چلتے چلتے میری ملاقات مقامی شخص اکبر سے ہوئی گو کہ وہ تعلیم سے نابلد تھا لیکن جنگلات کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھی ۔ درخت کی کٹائی پر استفسار کرنے پر اکبر جو کہ خود ابودبئی 20 سال محنت مزدوری کر چکے ہیں کا کہنا تھاکہ دبئی میں درخت کاٹنا ایک قانونی جرم سمجھا جاتا ہے درختوں کے کاٹنے پر قید و بند اور جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔ دبئی میں درختوں کی پیدوار بڑھانے کے لئے وہاں کی حکومت کے ساتھ ساتھ وہاں کے مکین بھی کوشاں ہیں۔ کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ صحرا کو خوبصورت بنانا ہے تو اس میں درختوں کی گنجائش زیادہ سے زیادہ کی جا سکتی ہے انکا مزید کہنا تھا کہ اگر وہاں کوئی ہائی وے کی تعمیر کا کام چل رہا ہوتا ہے تو کوئی درخت روڑ کی حدود میں آجائے تو درخت کو کاٹا نہیں جاتا بلکہ سڑک کا رخ موڑا جاتا ہے۔ میری سوچ میں وہ ادارے اور انکی افرادی قوت آجاتی ہے جو جنگل اور جنگلی حیات کی تحفظ اور بقاء کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں ۔ لیکن انکی کارکردگی کہیں نظر نہیں آتی۔ جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کا کام نہ صرف اداروں پر عائد ہوتی ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ سماج سے جڑے ہر اس فرد پر بھی جو اس ماحول میں سانس لے رہا ہے اور جسے صاف ہوا اور صاف فضا کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر مجھے میرے اپنے ہاتھوں سے لگایا ہوا یک درخت جسکی بنیاد پندرہ سال پہلے رکھی تھی کی یاد آجاتی ہے جو سرسبز بھی ہے اور صبح کا آغاز میں اسکی دیدار سے کرتا ہوں جس پر چڑیو ں کی ایک بڑی غول چہچہا رہی ہوتی ہے۔ جنہیں میں نے آزادی دی ہے جب تک میری زمین یعنی میری چاردیواری کا حدود ہے میں انہیں اس حدود میں آزادی فراہم کرتا ہوں اور انہیں مجھ سے دلی لگاؤ ہے اس درخت سے لگاؤ ہے نہ وہ مجھ سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی میں نے آج تک انہیں ڈرنے کی کوشش کی ہے۔ آیئے آپ بھی اپنے حصے کا کام کر جانا ایک درخت لگانا اور اسکی تحفظ کا ضامن خود بن جانا۔ پھر دیکھنا کہ آپکو یہ دنیا حسین نہ لگے۔