وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ پاکستان اور چین کے ساتھ ساتھ خطے کیلئے بھی بھرپور افادیت اور اہمیت کا حامل ہے، تاہم گوادرکے عوام کی ترقی کے عمل میں بھرپور شرکت اور صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں میں شراکت داری اس سے بھی زیادہ اہم ہے، ابتدائی مرحلے میں چین کو فری ٹریڈ زون کے لیے 644ایکڑ اراضی فراہم کی گئی ہے، جس کی دستاویزات پر دستخط کئے گئے۔ نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن چین کے وائس چیئرمین وانگ شی تاؤ ( Xiaotao Wang Mr.) ، وفاقی وزراء احسن اقبال، کامران مائیکل، چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ اور دیگر متعلقہ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ گوادرکے باشعور عوام اس اہم منصوبے میں بھرپور حصہ لینا چاہتے ہیں، تاہم ضروری ہے کہ ان کی اعتماد سازی کے لیے عملی اقدامات کرتے ہوئے انہیں ترقی کے مواقعوں میں برابر کا حصہ دار بنایا جائے، ثقافتی اور جغرافیائی طور پر بلوچستان نہ صرف جنوبی ایشیاء ، وسط ایشیاء اور مڈل ایسٹ کے لیے سنگ میل ہے بلکہ علاقائی ٹرانسپورٹ اور تجارت کے لیے بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا پاک چائنا اقتصادی راہداری میں اس خطے کی سماجی و اقتصادی ترقی کو خصوصی اہمیت دینے کی ضرورت ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ گوادر کی مقامی آبادی کی حقیقی ودیرپا ترقی اورانہیں معاشی سرگرمیوں اور روزگار کے مواقعوں میں ترجیح دینے سے ان میں احساس ملکیت پیدا ہوگا جو پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے کی کامیابی کے لیے ضروری ہے، انہوں نے کہا کہ گوادراور اقتصادی راہداری کاسرمایہ کاری کے مواقعوں میں اضافے اور انہیں دیرپا معاشی سرگرمیوں میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ہوگا۔ حکومت گوادر کو فری پورٹ سٹی قرار دینے جارہی ہے، جس سے کامیاب سرمایہ کاری کے مواقعوں میں کئی گناہ اضافہ ہوگا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ گوادر کی ترقی کے بہت سے منصوبے منظور ہوئے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ جوائنٹ گوادر ورکنگ گروپ کا اجلاس فوری طورپر منعقد کر کے ان منصوبوں کو حتمی شکل دی جائے اور پانی وتوانائی کے شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں کو اولین ترجیح دی جائے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری دونوں ممالک کو معاشی ترقی کے بہترین مواقع فراہم کریگی، جس سے گوادر کی گہرے پانی کی بندرگاہ کی اہمیت میں اضافہ ہوگا اور یہ خطے میں تجارتی مرکز بن جائیگی۔وزیراعلیٰ کے خوش کن اعلانات سے یقیناًبلوچ قوم سمیت ملک کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے ‘ مگر گوادر کے تحفظ اور اقتصادی راہداری پر سمجھوتہ نہ کرنے کی پالیسی جسے ’’گوادر فری کرائم زون‘‘ کا نام دیاگیا ہے اس سے وہاں کے عوامی حلقوں میں شدید بے چینی پیدا ہوئی ہے‘ خاص کر گوادر کے والی وارثوں کوکارڈ جاری کرنے کا عمل ایک نیا عجوبہ ٹائپ پالیسی ہے اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیں کہ کیاواقعی وہاں ترقی سے قبل ان کے قومی شناختی کارڈ کے علاوہ سیکیورٹی خدشات کے باعث کارڈ جاری کیے گئے ہوں؟ یقیناًنہیں ۔گوادر کے عوام کی ترقی ان تمام منصوبوں کے بعد شروع ہوگی مگر ترقی سے قبل ان پر سیکیورٹی خدشات کی بناء پر جس طرح کے قانون لاگو کیے جارہے ہیں اس سے گوادر کے باسی مزید پریشانی سے دوچار ہونگے جو کہ نیک شگون نہیں ۔اگر اس اہم مسئلے پر توجہ دی جائے تو گوادر کے عوام ترقی سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سرزمین پر اجنبی پن محسوس نہیں کرینگے ۔البتہ کارڈ ان کیلئے ضرور جاری کیے جائیں جو گوادر آنا چاہتے ہیں جو وہاں سرمایہ کاری کرینگے ،لیبر بنیں گے اُن کیلئے یہ اقدامات اٹھانے سے دیگر قو م پرست سیاسی جماعتوں کی جانب سے نکتہ چینی نہیں کی جائے گی۔ گوادر اوراقتصادی راہداری کے تحفظ پر سمجھوتہ نہ کرنے کی بات پر سب متفق ہیں مگر مذکورہ بالا اقدامات کو تمام حلقوں میں مثبت نہیں سمجھاجارہا جس کویقیناًتبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔