|

وقتِ اشاعت :   November 20 – 2015

افغانستان کی شورش زدہ حالات کے بعد افغان باشندوں کی بڑی تعداد نے پاکستان کا رخ کیا جبکہ اس وقت سب سے زیادہ افغان مہاجرین بلوچستان میں آباد ہیں۔ یواین ایچ سی آر کی جانب سے افغان مہاجرین کی جو تعداد بلوچستان میں بتائی جاتی ہے اس پر قوم پرست سیاسی جماعتیں انکاری ہیں۔ قوم پرست سیاسی جماعتوں کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین بلوچستان میں آباد ہیں جن میں غیر قانونی تارکین وطن سب سے زیادہ ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ افغان مہاجرین کی انخلاء کو یقینی بنانے کیلئے دسمبر 2015 کی تاریخ مقرر کی گئی تاکہ ان کو بحفاظت وطن واپس بھیجا جائے مگر اس کے بعد دو سال کی مزید توسیع کا معاملہ آیا۔ آئی ایس پی آر نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ افغان مہاجرین ملک کے امن کیلئے خطرہ بن چکے ہیں ‘ اگر اس بیان کا بغور جائزہ لیاجائے تو صرف بلوچستان میں آپریشن کے دوران غیر ملکی باشندے دہشت گردی ملوث پائے گئے ہیں جو آپریشن کے دوران مارے گئے ہیں۔ تمام افغان مہاجرین دہشت گردی میں ملوث نہیں ہوسکتے مگر ایک اندازے کے مطابق مہاجرین کی آڑ میں دہشت گردوں نے کچھ علاقوں کو اپنا ٹھکانہ بنانے کی کوشش کی ہے اور افغان مہاجرین میں چند لوگ ان کے سہولت کار کے طور پر بھی کام کرتے ہیں‘ بہرحال اب دسمبر کی آمد ہے اور افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ کن موڑ آچکا ہے۔آئی ایس پی آر کے بیان کو مد نظر رکھ کر اور ملکی معیشت خاص کر بلوچستان اور یہاں کے امن وامان کی صورتحال کو دیکھ کر اس بات پر بہت سارے تجزیہ کار متفق دکھائی دیتے ہیں کہ افغان مہاجرین کو دسمبر2015ء تک بحفاظت ان کے وطن واپس بھیجا جائے اور اس حوالے سے اگر کوئی شدید ردعمل سامنے آئے تو اس سے سختی سے نمٹا جائے کیونکہ یہ ملکی سلامتی کا بھی معاملہ ہے۔ دوسری جانب قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی یہی موقف رکھتی ہیں کہ افغان مہاجرین کی آمد سے بلوچستان میں کلاشنکوف کلچر، منشیات ودیگر جرائم کو تقویت ملی جو کہ یہاں کی عوام کیلئے بڑے خطرے کا سبب بنی ہے۔ قوم پرست بارہا اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کراچکے ہیں کہ بلوچستان میں رہائش پذیر افغان مہاجرین نے اپنے لیے جعلی شناختی کارڈ اور دیگر سرکاری دستاویزات بھی بنائے ہیں اور اب باقاعدہ یہاں کاروباری سرگرمیوں کے علاوہ اپنا ووٹ بھی کاسٹ کرتے ہیں جو ملکی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جس کی تدارک کیلئے محکمہ داخلہ اپنا کردار ادا کرے۔ افغان مہاجرین کافی عرصے سے یہاں رہائش رکھتے ہیں جن کی بہت زیادہ مہمان نواز ی بھی کی گئی مگر حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے دہشت گردی اور شدت پسندی سے بچنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ افغان مہاجرین کو بحفاظت اُن کے وطن واپس بھیجا جائے تاکہ وہ یہاں کی معیشت پر بوجھ نہ بنیں اور سیاست پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہ کریں۔ تاکہ سماجی تبدیلی کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے بڑے واقعات کے امکانات کوروکا جاسکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی حکومت افغان مہاجرین کی رہائش کیلئے دو سالہ مدت کیلئے مزید توسیع کرے گی یا دسمبر2015ء کے آخر میں اُن کی واپسی کا اعلان کرے گی۔ بہرحال افغان مہاجرین کی بحفاظت وطن واپسی سے اچھے اثرات مرتب ہونگے تاکہ یہاں کے عوام کی معیشت اور سیاسی حق پر ڈاکہ نہ ڈالا جاسکے‘ اب فیصلہ وفاقی حکومت کو کرنا ہے کہ وہ ان تمام عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا حکمت عملی اپنائے گی۔