|

وقتِ اشاعت :   November 23 – 2015

کوئٹہ: نگلہ دیش کا رہائشی غفر علی گزشتہ 2دہائیوں سے ایک مدرسہ فاروقیہ کوئٹہ میں مقیم ہیں۔ اور 20سال سے بطور مؤزن خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ اپنے پیاروں کو آج تک نہیں بھولے جن سے بچھڑے انکو 4 دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ وہ اردو کے ساتھ بنگالی اور دیگر زبانوں کو ملاپ کرکے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں جو جستجو کرنے والوں کو بہت کم سمجھ میں آجاتی ہے۔ مدرسے کے مہتمم قاری محمد قاسم جو اب انکی زبان کو مکمل طور پر سمجھاتے ہیں ہم نے انکی خدمات سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ غفر علی کی کہانی حالیہ عرصے میں میڈیا میں چھا جانے والی گیتا سے کچھ کم نہیں۔ غفر علی بھی انہی امیدوں کے سہارے زندہ ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ’’ میں گزشتہ 45سال سے مہاجر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔ 45 سال پہلے اپنے آبائی علاقے سے حج کے لئے سفر رخت باندھا تو اپنے گھر والوں کو یہ کہہ کر خداحافظ کیا کہ ایک مرتبہ مدینے کا دیدار ہوجائے تو آخری سانس تک وہیں کی رہیں گی۔ اسلئے اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی انکے گھر والوں نے اسکا پتہ نہیں لگایا‘‘ وہ اپنے بھائی کا نام جو ان سے عمر میں بڑے ہیں سفر علی جبکہ والد کا نام عقل ء اللہ بتاتے ہیں۔ جبکہ اپنا پتہ گاؤں مرادپور ضلع سلیٹ دلہ پولیس تھانہ بھینا چنگ بتاتے ہیں۔ قاری محمد قاسم کہتے ہیں کہ وہ اس وقت چھوٹے تھے جب غفر علی یہاں آئے۔ وہ کہتے ہیں کہ غفر علی جب بنگلہ دیش سے سعودی عرب حج کرنے گئے تو دوران سفر انکی تمام دستاویزات گم ہو گئے تھے۔ جسکی وجہ سے ان کا کوئی شناخت نامہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے وہ سعودی عرب سے مختلف ممالک ایران، کویت، عراق، انڈیا سے ہوتا ہو 1996کو پاکستان آیا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں کی چکر کاٹتے ہوئے جب یہ رائے ونڈ تبلیغی مرکز جا پہنچا۔ تو ایک تبلیغی جماعت میں اسکی تشکیل ہوگئی وہاں سے یہ کوئٹہ آیا۔ اور پہلا پڑاؤ جان محمد روڑ پر واقع پرانے نام سے مشہور مسجد صدیقی میں ہوا۔ جب وہاں اسکے زبان کو سمجھنے میں مشکل پیش آنے کی صورت میں اسے مدرسہ فاروقیہ منتقل کر دیا اور یہاں اس وقت ایک بنگالی بولی بولنے والا لڑکا امان اللہ نے اس کے ساتھ گفتگو کرکے اسکے مشکل کو آسان کر دیا تھا۔ محمد قاسم دوران گفتگو ٖغفر علی کو حاجی عبدالغفور کا نام دیتے تھے۔ پوچھنے پر کہ غفر علی سے حاجی عبدالغفور کیسے ہو گیا۔ تو انکا کہنا تھا کہ وہ جب سے یہاں آئے ہیں انہیں اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔غفر علی نے مختلف ممالک میں رہ کر اور وقت گزارنے پر دیگر زبانیں ہلکی پھلکی سیکھ لی ہیں لیکن ان تمام زبانوں میں بنگالی زبان کا غلبہ رہتا ہے۔ جو کہ اس سے مکالمہ کرنے والوں کو انکی باتیں بہت کم سمجھ میں آجاتی ہیں۔ قاری محمد قاسم بتاتے ہیں کہ پاکستان کے علاوہ انہوں نے ایران میں سات سال گزارے ہیں اور وہاں کھوکے پر کام کیا کرتا تھا۔ غفر علی عرف حاجی عبدالغفور کو آزان سے عشقیہ محبت ہے گو کہ انہیں اور بھی جگہوں میں سکنت کے لئے مکان ملے لیکن انہوں نے مسجد اور مدرسے سے اپنا ناطہ قائم رکھا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ تنگ آکر انکے والد نے انکو مدرسے سے نکال دیا تھا۔ لیکن بعد میں وہ اسے مدرسے میں جگہ دینے پر مجبور ہو گئے۔ جب قاری محمد قاسم سے پوچھا کہ انہوں نے کبھی انکا شناخت نامہ بنانے یا انہیں بنگلہ دیش واپس بھیجنے کے لئے کوششیں نہیں تو وہ اس حوالے سے اپنا سر نفی میں ہلاتے ہیں۔ البتہ وہ کہتے ہیں کہ غفر علی نے بذات خود ایک مرتبہ کوشش کی تھی اور یہاں سے جہاز کے ذریعے کراچی گئے تھے۔ لیکن وہی اسکا شناخت نامہ اسکی اور اس کے واپس جانے کے درمیان آڈے آیا۔ اور وہ مایوس ہوکر دوبارہ واپس کوئٹہ آگئے۔ غفر علی 90سال سے اوپر کے ہو چکے ہیں۔ وطن اور گھر والوں سے دوری اس کی بے چینی میں روز بروز اضافہ کر رہی ہے۔ جب بھی کوئی سوال اس سے پوچھا جائے تو وہ کہتا ہے کہ ان سوالات کا انکے جانے سے کیا واسطہ۔ ’’ مجھے تو پاسپورٹ دے دو تاکہ میں اپنا آبائی گاؤں دوبارہ جا سکوں‘‘۔ انہیں اب اتنا تو یقین ہے کہ انکی والدین تو زندہ نہیں ہیں لیکن انکا بھائی، بہن اور بیوی انکا رستہ ضرور تک رہے ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک وہ اپنے سرزمین کا خاک چھومنہ لیں۔ بقول غفر علی ان کے لئے تو سب آسان ہے لیکن کوئی شناخت نامہ نہ ہونے کی وجہ سے اسکی سفر میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ اور اس مسئلے کو سلجھانے کے لئے بنگلہ دیشی اور پاکستانی سفارتخانہ اپنا کردار ادا کرکے غفر علی کو اسکے بچھڑے خاندان سے ملا سکتے ہیں۔