گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ ان کی حکومت نے وفاق کو خط لکھا ہے کہ افغان مہاجرین کے ملک میں قیام میں مزید توسیع نہ کی جائے ۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کو اپنے ملک واپس بھیجا جائے ۔ وزیراعلیٰ کا یہ موقف عوامی مطالبے کی تائید ہے کہ افغان تارکین وطن اور خصوصاً افغان مہاجرین کو اپنے ملک جلد سے جلد واپس بھیجا جائے ۔ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں ۔ پہلے تو یہ افغان بشمول غیر قانونی تارکین وطن ملک کی قومی اور علاقائی معیشت پر زبردست بوجھ ہیں ۔ دوسرے یہ کہ یہ غیر قانونی کاروبار ‘ اسلحہ اور منشیات کی اسمگلنگ کے علاوہ دوسرے جرائم میں ملوث ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ ملک کی سلامتی کے لیے شدید خطرہ ہیں یہ عوام اور انتظامیہ کی متفقہ رائے ہے کہ ہر دہشت گردی کے پشت پر افغان نظر آتا ہے ۔ خصوصاً بڑے بڑے واقعات میں منصوبے افغانستان میں تیار کیے گئے بلکہ اکثر پر وہاں سے احکامات کے ذریعے عمل درآمد کروایا گیا تھا۔ ان وجوہات کے بعد حکومت کے پاس کوئی جواز باقی نہیں رہتا کہ وہ افغان مہاجرین کے قیام میں مزید توسیع کرے بلکہ وفاق صوبائی حکومتوں کو یہ ہدایات جاری کرے کہ غیر قانونی تارکین وطن افغانوں کے خلاف فوری کارروائی شروع کی جائے ۔ ان تمام لوگوں کو جائز قانونی دستاویزات نہ رکھنے پر گرفتار کیاجائے ان کی جائیداد ضبط کی جائے ۔ پہلے ان کو جیل کی سزا یا جرمانہ عائد کیا جائے اور بعد میں ان کوملک بدر کیا جائے ۔ ان میں سے کسی سے بھی کوئی رعایت نہ دی برتی جائے ۔ جب غیر قانونی تارکین وطن پر یہ واضح ہوجائے کہ وہ پاکستان میں غیر قانونی طورپر مقیم ہیں اور ان کو کسی وقت بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے اور ان کی جائیدادیں ضبط کی جا سکتی ہیں تو وہ خود ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ اس سے قبل کے پی کے کی حکومت نے چند ہفتوں میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف صرف پشاور شہر اور اس کے گردو نواح میں کارروائی کی تو اس کے بعد پچاس ہزار سے زائد افغان اپنے ملک خو ف سے چلے گئے ۔ چونکہ افغانوں پر یہ دباؤ بر قرار نہیں رکھا گیا اس لئے ان کے واپسی کا عمل رک گیا ۔ ہم نے بارہا ان کالموں میں حکومت بلوچستان کو یہ تجویز دی تھی کہ افغان تارکین وطن کے خلاف بھر پور کارروائی کافوری آغاز کیا جائے اور کارروائی کا آغاز کوئٹہ اور دوسرے شہری علاقوں سے کیا جائے تاکہ بلوچستان کے تمام شہر محفوظ ہوں اور بعد میں کارروائی دیہی علاقوں میں کی جائے ۔یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ افغان گرفتار کیے جاتے ہیں جو سرحدی محافظین کو رشوت نہیں دیتے جو رشوت دیتے ہیں ان کو حفاظتی حصار میں ایرانی بلوچستان کے سرحد پر پہنچایا جاتا ہے ایران ان کو آئے دن گرفتار کرتا رہتا ہے اور پاکستانی حکام کے حوالے کرتارہتا ہے لیکن اس بزنس میں آج تک کمی نہیں آئی ۔ انسانی اسمگلر ز اربوں روپے کما رہے ہیں اور حکومت کے کارندے ان کی مدد کرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کو بھی مناسب حصہ ملتا رہتا ہے ۔ مقامی لوگوں کو انتظار ہے کہ کب حکومت بلوچستان غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف بلوچستان بھر میں کارروائی کرے گی خصوصاً ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے جعل سازی کرکے شناختی کارڈ ‘ پاسپورٹ اور دیگر پاکستانی دستاویزات بنائے اور زیادہ موثر کارروائی ان لوگوں کے خلاف کی جائے جنہوں نے افغانوں کے جعلی دستاویزات کی تصدیق کی ،وہ لوگ خواہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہوں ان کے خلاف کارروائی سے معاملات رک جائیں گے اور کسی دوسرے با اثر فرد کے لئے یہ ممکن نہ ہو گا کہ وہ جعل سازی کرے اور افغانوں کے لئے جعلی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ کے حصول کے لئے جعلی تصدیق نامہ جاری کرے اگرکسی اسمبلی کے رکن نے جعلی تصدیق کی ہے تو اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نا اہل قرار دیا جائے اور اس کی اسمبلی کی رکنیت منسوخ کی جائے تاکہ آئندہ عوامی نمائندے اس طرح کا کام نہ کر سکیں ۔
افغان تارکین وطن کی واپسی
وقتِ اشاعت : November 23 – 2015