بلوچستان حکومت کی جانب سے فلور ملز کو سرکاری گندم کی فراہمی کے باوجود صوبے بھر میں گندم اور آٹے کا بحران بدستور برقرار ہے۔فلور ملزایسوسی ایشن نے سرکاری گندم کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے، ایسوسی ایشن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ محکمہ خوراک کا ہر آٹا مل کو صرف 300 بوری گندم دینا نا انصافی ہے، 300 بوری گندم سے نہ عوام کو ریلیف ملے گا، نہ آٹے کا بحران ختم ہوگا۔فلور ملز ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ محکمہ خوراک پاپولیشن بیسڈ پالیسی کے تحت آٹا ملزکو گندم فراہم کرے، محکمہ خوراک گندم کا ستمبرکا کوٹہ فوری جاری کرے۔ ایسوسی ایشن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں گندم کی ماہانہ ضرورت 16 لاکھ بوری گندم ہے، بلوچستان میں طلب کے مطابق گندم کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔دوسری جانب حکومت بلوچستان نے پنجاب حکومت سے مناسب قیمت پر ساڑھے 6 لاکھ بوریاں گندم فراہم کرنے کی درخواست کردی ہے۔وزیراعلیٰ پرویز الہٰی نے بلوچستان حکومت کی درخواست قبول کرتے ہوئے بلوچستان سرکار کو ساڑھے 6 لاکھ بوری گندم دینے کا اعلان کردیا۔بلوچستان کے صوبائی وزیر خوراک زمرک خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ پنجاب کی جانب سے گندم کی فراہمی سے صوبہ میں آٹے کا بحران حل ہو جائے گا۔وزیر خوراک نے لاہور میں وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزا لہٰی سے ملاقات کے موقع پر بتایا کہ حکومت بلوچستان کی جانب سے حکومت پنجاب سے ساڑھے چھ لاکھ بوری گندم فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔ چوہدری پرویز الہٰی نے بلوچستان کی درخواست منظور کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو مناسب قیمت پر بلوچستان کو فوری طور پر ساڑھے 6 لاکھ بوری گندم دینے کا حکم دے دیا ہے۔صوبائی وزیر خوراک بلوچستان زمرک خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ محکمہ خوراک بلوچستان فوری طور پر مذکورہ گندم کی ترسیل کا انتظام کرے گی جس سے صوبے میں گندم کا بحران حل ہو جائے گا۔
آٹے کی قیمت میںاضافہ اور بحران کے ساتھ ہی کوئٹہ شہر کی تندوروںمیں روٹی مہنگے داموں فروخت ہونے لگی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پرائس کنٹرول اور انتظامیہ کسی بھی طرح کی کارروائی سے قاصر ہے کہ اس بحرانی کیفیت کے دوران گرانفروشوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائے۔ بہرحال موجودہ صورتحال میں سب کو ملکر راستہ نکالنا ہوگا فلورملز ایسوسی ایشن اور حکومت مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالیں پہلے سے ہی بلوچستان کے عوام سیلاب کی تباہی کے باعث پریشانی میں مبتلا ہیں دوسری جانب اس طرح کی مصنوعی بحران پیداکرکے خوراک سے لوگوں کو محروم کرنا سراسر زیادتی ہے اس طرح کے حالات میں اپنے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ناکہ ضد اور انا کو درمیان لاکر ایک بحران پیدا کیا جاتا ہے حکومت کو بھی چاہئے کہ فلورملز ایسوسی ایشن کے ساتھ بات چیت کرکے راستہ نکالنے کی کوشش کرے تاکہ یہ مسئلہ جلد حل ہوسکے اور عوام کو کم ازکم روٹی مہنگے داموں میں تو نہ ملے ۔اب دودھ کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیاگیا ہے کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے عرصہ دراز سے یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے کہ گرانفروش عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں جبکہ پرائس کنٹرول کمیٹی حسب روایت منظر عام سے غائب دکھائی دیتی ہے ۔
مارکیٹوںمیں سرکاری نرخنامہ نہیں لگایاجاتا اگر کہیں کسی جگہ پر لگا ہے تواس پر عملدرآمد ہونے کے متعلق دورہ بھی نہیں کیاجاتا تاکہ حقیقی صورتحال سے آگاہی مل سکے ۔ حکومت اس حوالے سے پرائس کنٹرول اور ضلعی انتظامیہ کو پابند کرے کہ گرانفروشوں کے خلاف کارروائی کرے، غفلت برتنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔