آئے دن ایرانی حکام ہم کو شرمندہ کرتے رہتے ہیں اور تقریباً روزانہ سو کے لگ بھگ غیر قانونی تارکین وطن کو ایران میں گرفتار کر لیتے ہیں اور بین الاقوامی سرحد پر مقامی حکام کے حوالے کرتے رہتے ہیں، حکومت پاکستان ٹس سے مس نہیں ہوتی اس کا برتاؤ ایسا ہے کہ کچھ ہوا ہی نہیں ان کو ملک کے وقار اور بے عزتی کی کوئی فکر نہیں ،نہ ہی اس کا کوئی حل تلاش کیا جارہا ہے بلکہ دہائیوں سے یہ کاروبار چل رہا ہے ۔ غریب گھرانے لاکھوں روپے انسانی اسمگلروں کو ادا کرتے ہیں کہ وہ ان کو جنوبی یورپ کے ملکوں میں پہنچائیں مگر وہ بیچارے ایران ہی میں گرفتار ہوجاتے ہیں وجہ صرف یہ ہے کہ پاکستان میں ہر متعلقہ شخص ‘ افسر اور ادارہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہے اور اربوں روپے کمار ہے ہیں تارکین وطن کو وی آئی پی کی طرح تمام متعلقہ افسران اور ادارے پاکستان کی سرحد با حفاظت پار کراتے ہیں اور ان کو کوئی نہیں پوچھتا ۔میں یہاں اپنا ذاتی واقعہ بیان کروں تاکہ لوگ معاملے کی تہہ تک پہنچاجائیں ۔ میں کوئٹہ سے تفتان ‘ زاہدان جانے کے لئے گاڑی میں سفر کیا، مجھے نوشکی سے لے کر تفتان تک 11چیک پوسٹوں پر ایف سی نے روکا ۔ بوڑھے‘ سفید بالوں والے بزرگ شخص سے ہر چیک پوسٹ پر شناخت کروانے کو کہا ،بعض نے پاسپورٹ کا مطالبہ کیا۔ میں نے حکومت کی جانب سے جاری کردہ صحافتی شناختی کارڈ ان کے حوالے کرتا رہا اور ان کو بتاتا رہا کہ میں پاکستان کی سرزمین پر ہوں سرحد پر نہیں ہوں، آپ مجھ سے پاسپورٹ کیوں طلب کررہے ہیں ؟میں بلوچ ہوں پورے چاغی اور واشک اضلاع میں میرے دوست احباب اورجاننے والے ہیں میں کسی کے بھی پاس جا سکتا ہوں مگر چیک پوسٹ والے پھر بھی پاسپورٹ طلب کرتے رہے اور میں نے ان کو یہ پیش کش کی کہ مجھے گرفتار کریں سرحد سے 200میل پہلے کہ پاکستان کی سرحد عبور کرنے جارہاہوں ۔ تاہم میں خوش ہوا کہ انسانی اسمگلنگ ان اقدامات سے کم ہوگی ۔ جب میں چند گھنٹوں بعد تفتان پہنچا تو ایک مقامی افسر نے بتایا کہ ایرانی حکام نے 90غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کرکے ان کے حوالے کیا ہے اور وہ ان کو کوئٹہ لے جارہے ہیں جب مجھ جیسے بوڑھے شخص سے اتنی پوچھ گچھ کی گئی اور گیارہ چیک پوسٹوں پر روکا گیا تو یہ سینکڑوں کی تعداد میں وسط پنجاب کے رہنے والوں کو کس طرح ایران کی سرحدتک پہنچایا گیا۔ اس میں تمام ادارے ملوث معلوم ہوتے ہیں اور ان کوخصوصی طورپر محفوظ راستہ فراہم کرتے ہیں ان میں اسی فیصد وسطی پنجاب کے لوگ ہیں اور بیس فیصد افغان ہیں وہ سڑک کے راستے ایران میں داخل ہوتے ہیں ۔چونکہ وہ مقامی لوگ نہیں ہیں اس لئے ایران کے بلوچ سرحدی محافظین ان کو فوراً گرفتار کر لیتے ہیں ۔صرف وہ لوگ ترکی کی سرحد پر پہنچ جاتے ہیں جن کے پاس پاسپورٹ اور ویزا ہوتا ہے اور باقی لوگ ایرانی بلوچستان میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور ان کو پاکستان کے حوالے کیا جاتا ہے ۔ یہ ایک منظم گروہ ہے جس کی سرپرستی بہت ہی طاقتور لوگ کررہے ہیں ان کا تعلق گجرات اور اس کے قریبی اضلاع سے ہے ۔ حالیہ مہم میں زیادہ گرفتاریاں وسطی پنجاب میں ہوئیں نوے فیصد کارندوں کا تعلق وسطی پنجاب سے ہے ۔ وسط پنجاب سے یہ بسوں میں بیٹھ کر تفتان اور ایرانی سرحد پر سرکاری سرپرستی اور محفوظ نگرانی میں پہنچا دئیے جاتے ہیں اور سرحدی محافظ ان کو آسانی سے سرحد کے دوسری طرف جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ بہر حال ہمارے علم میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ وسط پنجاب سے غیر قانونی تارکین وطن کبھی پاکستانی علاقوں میں گرفتار ہوئے ہیں البتہ افغان شہری ضرور گرفتار ہوتے ہیں، وہ بھی صرف اس لئے گرفتار ہوتے ہیں کیونکہ وہ مفت میں ایرانی سرحد پہنچنا چاہتے ہیں اور چیک پوسٹوں پر رشوت نہیں دیتے ۔جو افغان مہاجر یا غیر قانونی تارکین وطن مناسب رشوت ادا کرتا ہے اس کو پاکستانی سرحد عزت اوراحترام سے پار کرائی جاتی ہے اس کو مہمان کا درجہ دیا جاتا ہے ۔بہر حال ایران کے بارہا احتجاج کا اثر ہمارے رشوت خور معاشرے پر نہیں ہوا اور شاید نہیں ہوگا۔ حکومت کا کوئی وقار نہیں، ایرانی احتجاج کو مسلسل رشوت کے حصول کی خاطر نظر انداز کیاجاتا رہے گا۔
سرکاری سرپرستی میں انسانی اسمگلنگ
وقتِ اشاعت : December 6 – 2015