|

وقتِ اشاعت :   September 24 – 2022

بلوچستان میں لوگوں کی اکثریت کا ذریعہ معاش کا انحصار زراعت پرہے مگر زمینداروں کو بہت ساری مشکلات اول روز سے درپیش ہیں ،پانی نہ ہونے کی وجہ سے زراعت کا شعبہ پہلے سے ہی متاثر تھا مگر حالیہ سیلاب نے زمینداروں کو بری طرح متاثر کردیا ہے کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں، زمینیں زیرآب آگئیں ،مال مویشی مرگئے ہیں جوکسان کل تک بہترین زندگی گزار رہے تھے اب ان کو کھانے کے لالے پڑ گئے ہیں ،ان کی نظریں امداد پر ہیں کہ انہیں کسی طرح مالی مدد ملے تاکہ دوبارہ وہ اپنی زمینوں کو آباد کرکے کاشتکاری کرسکیں۔ اس وقت ہنگامی بنیادوں پر اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ نقصانات بہت زیادہ ہوئے ہیں زمینداروں کے علاوہ دیگر طبقات کے کاروبار بھی تباہ ہوگئے ہیں، مال وجان کا بڑا نقصان ہوا ہے جان کا ازالہ تو نہیں ہوسکتا مگر مالی نقصانات کوپورا کرنے کے لیے اقدامات اٹھاکر زخموں پر مرہم رکھا جاسکتا ہے۔

جبکہ وبائی امراض جو تیزی سے پھیل ر ہے ہیں جس میں گیسٹرو، جلد، ملیریا سمیت دیگر وبائی امراض شامل ہیں اس سے لوگ بہت زیادہ متاثر ہورہے ہیں طبی سہولیات کے فقدان کے باعث اموات بھی ہورہی ہیں اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بہرحال گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت منعقد ہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں بلوچستان زرعی بحالی پلان اور فوڈ سیکیورٹی سے متعلق صوبے کے سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں زراعت کے شعبے کی بحالی کے لیے کسانوں کو 15.83 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کرنے کی منظوری دے دی گئی، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ دیگر صوبوں کو دیکھتے ہوئے سبسڈی کو مزید بڑھایا جائے ، اجلاس کو سیکریٹری زراعت نے سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں زرعی بحالی پلان بلوچستان پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ زرعی بیجوں پر حکومت کسانوں کو 6.71 ارب روپے کی سبسڈی دے گی اور فرٹیلائزر پر کسانوں کو 6.47 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کی جائے گی جبکہ سولر سسٹم کی بحالی اور بور کے لیے 2.62 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کی جائے گی۔

صوبے میں حالیہ سیلابی بارشوں سے مختلف اضلاع میں 52 فیصد خریف کی فصلوں کا رقبہ متاثر ہوا ہے اور ذخیرہ شدہ بیجوں کا ضیاع بھی ہوا ہے جبکہ سیلابی صورتحال سے کینال کا نظام بھی متاثر ہوا ہے ،زرعی شعبے کو پہنچنے والے نقصان کے باعث خوراک کی قلت کا خدشہ ہے زرعی بحالی پلان کے تحت حکومت کسانوں اور کاشتکاروں کو سبسڈی فراہم کر رہی ہے رجسٹرڈ کسانوں کو زرعی بیجوں پر صوبائی حکومت 70 فیصد سبسڈی دے گی سولر سسٹم کی بحالی اور کھاد پر حکومت کسانوں کو 50 فیصد سبسڈی فراہم کرے گی، یہ سبسڈی صوبے کے بارانی اور نہری دونوں علاقوں میں فراہم کی جائے گی جبکہ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے جوائنٹ سروے کیے جارہاہے ۔زرعی شعبے کی بحالی سے فوڈ سیکورٹی اور کسانوں کے روزگار کے تحفظ سے مجموعی طور پر اس شعبے سے 324 ارب روپے کے مالی فوائد حاصل ہوں گے اس پلان کے تحت ربیع کے فصلوں پر بھی توجہ دی جائے گی اجلاس میں وزیر خوراک نے بتایا کہ صوبے میں آٹے کی قلت دور کرنے کے لیے حکومت پنجاب اور پاسکو سے گندم کی خریداری کی جارہی ہے اور عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کے لیے مختلف جگہوں پر سیلز پوائنٹس قائم کیے گئے ہیں ۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ وقت کسان بھائیوں کی مدد کرنے کا ہے اور ہم نے کسانوں کو سبسڈی دے کر انہیں اونرشپ دینی ہے اگر کابینہ اراکین کو دو مہینوں کی تنخواہیں بھی نہ دینا پڑے تو ہم اپنے کسانوں کی مدد کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں وفاقی تعاون کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے کسانوں اور کاشتکاروں کی مدد کر سکیں ۔انہوں نے صوبے میں آٹے کی ارزاں نرخوں پر فراہمی پر وزیر خوراک کو سراہتے ہوئے ہدایت کی کہ عوام کو معیاری اور سستے آٹے کی دستیابی یقینی بنائی جائے۔صوبائی حکومت کی جانب سے کسانوں کے لیے اٹھائے گئے اقدامات قابل ستائش ہیں مگر ساتھ ہی متاثرین کے گھروں کی بحالی ،وبائی امراض سے بچاؤ اور ان کی زندگی کو دوبارہ معمول پرلانے کے لیے وفاقی حکومت سے رجوع کیاجائے تاکہ جو عالمی سطح پر امداد مل رہی ہے اس کے ذریعے متاثرین کی بھرپور مدد کی جائے اور اس میں شفافیت کو یقینی بنایاجائے تاکہ کسی بھی متاثرہ شخص کے ساتھ ناانصافی نہ ہوسکے۔