کوئٹہ: بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اسے سیاسی طور پر حل کیا جائے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے سماج سے جڑے ہر انسان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور افراد کو لاپتہ کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف ایک پلیٹ فارم بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ بلوچستان میں انسانوں کو انسان سمجھ کر سلوک کیا جائے۔ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے منظر عام پر لایا جائے۔ انسانی حقوق کی عالمی دن کے مناسبت سے بلوچ ہومین رائٹس آرگنائزیشن کی جانب سے منعقدہ پروگرام میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا اظہار خیال اور پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ۔ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی رہنماء حاجی لشکری رئیسانی نے کہا کہگزشتہ کئی دہائی سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ جب بلوچستان میں بسنے والے افراد کو انسان ہی سمجھا نہیں جاتا تو یہاں انسانی حقوق کی بات کرنا بے معنی ہی لگتا ہے۔ انہوں نے میڈیا کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا کو تین مہینے تک صرف لاہور کے ایک حلقے کی انتخابات دکھانے سے فرصت نہیں ملی تو بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اسکی تماشا بینی پر افسوس کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک امید کی کرن عدلیہ کی صورت میں موجود تھی اب اس نے بھی بلوچ مسنگ افراد کا کیس خارج کرکے مایوس کردیا۔ بلوچ مسنگ پرسنز کے لئے آواز اٹھانے والے خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں انسرجنسی کو کاؤنٹر کرنے کے لئے مذہبی شدت پسندی کے رجحانات کو جنم دیا گیا ہے۔ نیشنل پارٹی بلوچستان کے رہنماء و بزرگ سیاستدان ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں 1948سے بلوچستان میں جابرانہ نظام تسلط کیا جا چکا ہے جسکے آئے روز انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ، سندھی اور سرائیکی قوم کو اپنے حقوق کے لئے متحد ہو کر لڑنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ جو معاشرہ 23سال تک بغیر آئین کے اپنا زندگی گزار چکا ہو اسکے لئے 1973کے آئین پر عملدرآمد کرنا مشکل کام ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر قانون سازی کریں لیکن یہ اسمبلیاں برائے نام کے ہیں اور اس میں بیٹھے سیاستدان اپنی اقتدار کے بچاؤ کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے دم ہلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء صادق ترین نے کہا کہ انسانی حقوق کی پامالیوں کے باوجود بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اقتدار کی خاطر یا تو مصلحت کا کا شکار ہیں یا لفاظی کے شکار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب مسنگ پرسنز کا کیس خارج کرنا انتہائی افسوسناک عمل ہے۔ اور ہم مسنگ پرسنز کے کیس کو repetitionکرنے جا رہے ہیں۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیرمین نصراللہ بلوچ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں گوہاں اور شواہد اور ریکارڈ کی موجودگی کے باوجود مسنگ پرسنز کے کیس کو خارج کرنا بلا جواز ہے۔ سپریم کورٹ میں آئی جی بلوچستان کا بیان تحریری طور پر ریکارڈ میں موجود ہے اور دیگر گواہاں اور شواہد کی روشنی میں فیصلہ مسنگ پرسنز کے لواحقین کے حق میں آنا چاہئے تھا۔ لیکن ان تمام ثبوت کے باوجود انصاف کے تقاضے پورا نہیں کئے گئے انہوں نے کہا کہ انصاف کے حصول کے لئے ایک ہی دروازہ باقی بچا تھا اب وہ بھی بند کر دی گئی ہے اب انصاف کے لئے کس کو دہائی دیں۔انہوں نے سیکیورٹی اداروں پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اغواء اور مسخ شدہ لاشوں کے پھینکنے میں ان اداروں کا ہاتھ ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ سپریم کورٹ کی سطح پر باقاعدہ قانون سازی کی جاتی۔ اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے اگر کیس ثابت ہوجائے تو ہم اسے تسلیم کریں گے لیکن جبری گمشدگیاں کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں۔ HRCPبلوچستان کے وائس چیرمین طاہر حسین ایڈوکیٹ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے 30دفعات میں انسانی حقوق کی بات کی گئی ہے۔ پاکستان کے آئین آرٹیکل 40کے تحت یہ لکھا گیا ہے کہ کسی بھی انسان کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا جائیگا۔ لیکن پھر ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی حقوق کے لئے بننے والی جماعتوں کو کاؤنٹر کرنے کے لئے مذہبی جماعتوں کی شکل میں ادارے قائم کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیکشن 54 کے مطابق پولیس کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مجرم کو پکڑ کر 20گھنٹے کے اندر اندر اسے عدالت میں پیش کرے اور بتائے کہ اسکا جرم کیا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے عدالت اور پولیس کا کام کسی اور کو کرنا پڑ رہا ہے۔ بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے چیئر پرسن گل بی بی بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور میڈیا خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں ہر علاقہ متاثر نظر آتا ہے۔ جماعت اسلامی بلوچستان کے رہنماء بشیر احمد ماندائی نے کہا کہ ریاست میں سب سے پہلا حق جینے کا ہے اور ریاست کی زمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کرے لیکن اقوام متحدہ کی جانب سے بننے والی انسانی حقوق کے چارٹر کی خلاف ورزیاں پوری ملک میں جاری ہیں اور بلوچستان اسکا سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماء رضا وکیل نے کہا کہ انسان حقوق کی خلاف ورزیوں نے بلوچستان میں بسنے والے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے ہزارہ برادری ایک چاردیواری کے اندر محصور ہو کر رہ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے پر مقتدر حلقوں کو اپنے غلطیوں کا ادراک کرنا چاہئے تھا لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء نے کہا کہ بلوچستان میں رہنے والے قوموں کو تقسیم کرنے کی پالیسی کامیاب نظر آتی ہے۔ جب بھی بلوچ اور بلوچستان کے حقوق کی بات کی گئی ہے تو مقتدر حلقوں نے اس مسئلے سے منہ موڑنے کی کوشش کی ہے بلوچستان میں افراد کی گمشدگی اور دیگر عوامل کے پس پردہ محرکات کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جس سے دیگر مسائل نے جنم لیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بلوچستان میں تعصبات اور نسل سے بالاتر ہوکر تمام جماعتوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے اور انہیں اپنا پلیٹ فارم بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ پروگرام کے فوراً بعد پریس کلب کوئٹہ کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنزکی جانب سے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔