وزیراعظم میاںمحمدشہباز شریف کی جانب سے آڈیولیکس کے معاملے پر تحقیقات کرنے کا فیصلہ بہترین اقدام ہے یہ محض بیان تک محدود نہ رہے بلکہ اس کی ہر طرح سے جانچ ہونی چاہئے کہ کس طرح سے وزیراعظم ہاؤس کے ٹیلیفون کالز ریکارڈ ہورہی ہیں اور کب سے یہ سلسلہ چل رہا ہے ۔عملہ کو شامل تفتیش کرتے ہوئے تمام تر معلومات لینی چاہئے جیسے کہ پہلے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ جسے چند بیانات کے ذریعے رفع دفع کیاجائے اور اس مسئلے کو سرد خانے کی نذر کیاجائے ،اس لیے ان تحفظات اور خدشات کااظہار کیاجارہا ہے کہ سینیٹ سے جب خفیہ کیمرے برآمد ہوئے تو بہت زیادہ واویلا موجودہ حکومت کے رہنمائوں نے مچایا جب یہ اپوزیشن میں تھے اور اس کے بعد حکومت میں آئے تو اس کی تحقیقات تک نہیں کرائی گئی کہ ایوان بالا جس کی اہمیت اداروں کے حوالے سے بہت زیادہ ہے وہاں کس طرح سے خفیہ کیمرے نصب کئے گئے، عملہ خواب خرگوش میں تھا کہ انہیں کچھ علم نہیں ہوا، کس نے کیمرے نصب کئے ،وہ جن یا بھوت تو نہیں تھے کہ دکھائی نہ دیتے ، انہوں نے کیمرے نصب کئے یا پھر چھوٹا ساآلہ رکھ کر چلے گئے بلکہ کیمرے لگائے گئے ۔
اس بات سے مکمل انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس عمل سے عملہ واقف تھا اور ان کے اعتماد کے بغیر یہ کام ممکن نہیں مگر اس کے باوجود آج تک اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ اب وزیراعظم ہاؤس کی آڈیولیکس کے ساتھ سینیٹ میں لگائے گئے خفیہ کیمروں کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے جب تک پارلیمان کا وقار، عوام کے ووٹ کی عزت بحال نہیں ہوتی، حکومتوں کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جو دعوے پہلے موجودہ حکومت کرتی آئی ہے اب انہیں اپنے بیانیہ پر عمل پیراہوکر حقیقی معنوں میں پارلیمان کی بالادستی، جمہوریت اور آئین کے وقار کو بحال کرنا ہوگا ۔ گزشتہ روز وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مخلوط حکومت کی کاوش سے پاکستان تنہائی کے دور سے نکل آیا، اس تنہائی نے پاکستان کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے، اس تنہائی کی وجہ پچھلی حکومت ہے جس نے ہماری خارجہ پالیسی کا بیڑہ غرق کردیا، جن دوست ممالک کو ناراض کیا گیا میں اس کا عینی شاہد ہوں۔انہوں نے کہا کہ آڈیو لیکس بہت سنجیدہ معاملہ ہے، عالمی لیڈرز بات کرنے سے پہلے سو بار سوچیں گے کہ یہاں بات کرنی ہے یا نہیں؟ آڈیو لیکس کے معاملے کی تحقیقات ہوں گی، آڈیو لیکس کے حوالے سے حقائق عوام کے سامنے رکھیں گے، آڈیو لیکس سنجیدہ لیپس ہے، یہ میری بات نہیں، پاکستان کے 22 کروڑ عوام کی عزت کی بات ہے۔وزیراعظم میاں شہباز شریف نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے اعلی سطح کی کمیٹی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ 1997 سے لے کر آج تک تمام بیرونی دوروں کے اخراجات خود ادا کیے ہیں۔
وزیراعظم نے تنہائی اور دوست ممالک سے تعلقات پر بات تو کی مگر اندرون خانہ جو اس وقت سنگین نوعیت کے معاملات چل رہے ہیں اس پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا ہوگی دنیا کو یہ پیغام جانا چاہئے کہ پاکستان میں پارلیمان بالادست ہے، سب آئین کے تابع ہیں اس سے بالاتر کوئی نہیں ہے یہ اس وقت ہوتا ہوا نظرآئے گا جب آڈیولیکس ، خفیہ کیمروں جیسے معاملات کی تحقیقات کرتے ہوئے اصل کرداروں کو سامنے لایا جائے گاوگرنہ دنیا بھی ان بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لے گی کیونکہ دنیا بھی ا ن کے ساتھ تعلقات مضبوط رکھنا چاہتی ہے جن کی ملک میں حکومت مضبوط ومستحکم ہو جن کے پاس تمام تر اختیارات ہوں بغیر کسی دباؤ کے وہ اپنا کام کررہے ہوں۔ امید ہے کہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف آڈیولیکس کے ساتھ سینیٹ میںلگائے گئے خفیہ کیمروں کی تحقیقات کرکے اصل کرداروں کو سامنے لائینگے۔