|

وقتِ اشاعت :   December 16 – 2015

2013ء میں جہاں بلوچستان میں برائے نام الیکشن ہوا۔وہیں ایک ایسی کمزور حکومت سامنے آ گئی جسکے پاس اختیارات کم تو مسائل زیادہ تھے۔پورے ڈھائی سال بلوچستان کا صوبائی اسمبلی محازآرائی کا مرکز بنا رہا۔زیادہ تر وقت رسہ کشی میں گزر گیا۔ حکومت کے اندر بھی اور باہر گرم کچڑی پکتی رہی۔ کبھی ایسا موقع آیا کہ موجودہ سیٹ اپ ڈانواں ڈھول ہونے لگی تو کبھی اس میں نرمی بھرتی گئی۔ وفاق کے پاس ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے بہتر انتخاب شاید ہی کوئی اور ہوتا۔اور یہ سسٹم ایک معاہدے کے تحت عمل میں آیا جسے مری معاہدے کا نام دیا گیا شروع میں اسے صیغہ راز میں رکھا گیالیکن میڈیا ڈھائی سالہ دور میں مری معاہدے کا راگ الاپتا رہا۔ نواب ثناء اللہ زہری کبھی متوسط طبقے کے پہلو بیٹھے نظر آئے تو کبھی غصے کا اظہار کرکے پارٹی کی صوبائی حکومت سے علیحدگی کے منصوبہ بناتے رہے۔ اسے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ انہوں نے ایک ایسی کولیشن گورنمنٹ کی سربراہی کا راستہ چنا جسے شاید ہی نواب ثناء اللہ زہری جیسی قد آور شخصیت قبول کر لیتے جیسے تیسے کرکے ڈھائی سالہ دور حکومت پورا ہوا میڈیا اور سیاسی حلقوں میں اس قیاس آرائی نے جنم لیا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو اگلے ٹرم تک وزیراعلیٰ کے عہدے پر برقرار رکھا جائے گا۔ لیکن یہ قیاس آرائیاں ایک مرتبہ پھر دم توڑ گئیں جب میاں نواز شریف نے نواب ثناء اللہ زہری کو اسلام آباد بلا کر ان سے ملاقات کے بعد یہ اعلان سنا دیا کہ نواب ثناء اللہ زہری اگلے ٹرم کے لئے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوں گے۔ اس سے نہ صرف مسلم لیگ ن کی بلوچستانی قیادت میں خوشی کی لہڑ دوڑ گئی بلکہ ایک نیا سیاسی تنازعہ سر اٹھانے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔گو کہ سیاسی اور میڈیا کے حلقوں میں اس بات کا گن گایا جا رہا ہے کہ نوازشریف نے بھروقت اور درست فیصلہ کیا ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال اس سے بھی زیادہ اہم ہے کہ بلوچستان کو ہربار فاق کا مرہون منت کیوں بننا پڑتا ہے جبکہ اسکی اسمبلی موجود ہے۔ تو پھر اختیارات کا مالک وفاق کیوں۔۔ کیا یہ اسمبلی اتنا اختیار نہیں رکھتی کہ اپنے فیصلے خود کرسکے لیکن ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی جھولی وفاق کے سامنے پھیلائی گئی اور ہر جماعت نے اپنی بات منوانے کی کوشش کی۔ وفاق کو ڈاکٹر عبدالمالک کی صورت میں شایدکوئی دوسرا نیک اور شریف انسان دستیاب نہیں لیکن شاید نواب ثناء اللہ زہری بلوچستان کی سیاست میں اتنے بااثر ہو چکے ہیں یا کہ ان کی ناراضگی نوازشریف مول لینا ہی نہیں چاہتے تھے۔ یہ بات روز اول سے عیاں تھی کہ بلوچستان میں فری اینڈ فیئر الیکشن نہیں ہوئے بلکہ ایک خوف کے ماحول میں الیکشن کرائے گئے اور اس الیکشن کے نتیجے میں وہ نمائندے بھی الیکشن میں جیت گئے جنہوں نے پانچ سو ووٹ لے کر اپنی کامیابی کا فخریہ اانداز میں اعلانکیا۔ اور یہی حال دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کامیاب امیدواران کا بھی تھا۔ سو جب کامیاب امیدوار ہی عوامی مینڈیٹ حاصل نہ کر سکے تو بھلا اسے مرکز میں کیا حیثیت حاصل ہوگی اور وجہ بھی یہی ہے کہ آج تک جتنے فیصلے کئے گئے وہ اسمبلی میں بیٹھے امیدواروں سے پوچھے بغیر کئے گئے۔ اور گوادر میں میگا پروجیکٹ کے تمام فیصلے اسمبلی اور وزیراعلیٰ سے پوچھے بغیر پایہ تکمیل تک پہنچائے گئے ۔موجودہ اسمبلی ممبران وفاق کے احسان تلے اپنی وزارتوں اور مری معاہدے کا راگ الاپتے رہے اور فیصلے اوپری سطح پر ہونے لگے۔ گوادر میگا پروجیکٹ کیسے بنے گی اور اسکا نقشہ کیسے ہوگا اور اس سے بلوچستان کی تقدیر بدلے گی یا نہیں ۔البتہ نمائندوں سے رائے اور انہیں اعتماد میں نہ لینا اس بات کی واضح دلیل تھی کہ موجود صوبائی اسمبلی ایک ربڑ اسٹمپ کے سوا کچھ نہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اہل بلوچستان کی زندگیوں کا فیصلہ کرنے سے پہلے یہاں کے باسیوں کے رائے کا بھی احترام کیا جاتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا بلوچستان کی تقدیر کا فیصلہ اسلام آباد کے بجائے یہاں کے مقتدر حلقے اور نمائندے خود کرتے کیا ہی اچھا ہوتا بلوچستان کی معدنی وسائل کے اصل وارثوں سے پوچھ کر وسائل کی تقسیم کی جاتی کیا ہی اچھا ہوتا کہ بلوچستان میں احساس محرومی کا وجود ہی نہ ہوتا یہاں کا بسنے والا ہر گھرانہ خوشحال ہوتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کئی دہائی گزر جانے کے باوجود ایسا کچھ بھی بلوچستانیوں کی حق میں جاتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ جب بھی بلوچستان زیر بحث آتا ہے تو اسکی احساس محرومی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ مقتدر حلقوں کی جانب سے سابقہ غلطیوں پر شرمندگی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ وعدے وعیدیں ہوتی ہیں لیکن یہاں کا تقدیر بدلتا ہوا محسوس نہیں ہوتا۔ اب کے بار جب متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے شخص کو اقتدار کی گدی سونپی گئی عام حلقوں کی جانب سے جس خوشی کا اظہار آج سے ڈھائی سال پہلے کیا جا رہا تھا اور جو امیدیں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے وابستہ کی جا رہی تھیں اس پر ڈاکٹر صاحب اتر نہیں پائے۔شاید اسکی وجہ اسکی کمزور حکومت اور کھینچا تانی ہو سکتی ہے جبکہ دوسری جانب شاید انہیں الیکشن سے پہلے امید نہیں ہوگی کہ اسکی جماعت کو اقتدار نصیب ہوگی اسلئے اسکے پاس نہ کوئی پلان تھا۔ البتہ ان ڈھائی سالوں کے دوران بلوچستان میں جس قسم کی اسمبلی جوڑی گئی یا رشتے توڑے گئے یا جو سیٹ اپ سامنے آیا ان سب سے یہ بات عیاں تھی کہ یہاں کی اسمبلی کے پاس بلوچستان کی تقدیر بدلنے کا کوئی اختیار نہیں۔ فیصلے کہیں اور ہوتے تھے اور اسکی آواز بلوچستان کی اسمبلی میں گونجنے لگتا تھا۔ وزیراعظم میاں نوازشریف صاحب کے حالیہ فیصلے نے نہ صرف سیاسی ناقدین کو بھی حیران کردیا بلکہ اسکے ساتھ صحافتی حلقوں کی جانب سے جو قیاس آرائیاں کی جاتی رہی تھیں اور اچانک وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے مری معاہدے پر عملدرآمد کا سامنے آجانا سب کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ دوران اقتدار اس بات کو کئی مرتبہ دہرا چکے تھے کہ وہ منصب کے لئے منتخب نہیں ہوئے ہیں بلکہ وہ کسی اور کی خواہش پر یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں اور جب بھی وہ چاہیں تو وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ اسے بلوچستان والوں کی بدقسمتی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کا متوسط طبقہ یہاں کے عوام کی ترجمانی نہ کر سکااور اسمبلی میں موجود نمائندوں کا مقصد اورزور، قیادت کے حصول پر رہا ۔ بلوچستان کے عوام کی خواہش کیا ہے وہ کیا چاہتے ہیں اسکو جاننے کی تو آج تک زحمت ہی نہیں کی گئی۔کیونکہیہ انکے حصے کا کام ہی نہیں کیونکہ وہ عوام کی ووٹوں سے منتخب ہی نہیں ہوئے بھلا وہ عوام کی کیا ترجمانی کریں گے۔ البتہ یہ کوئی مانے یا نہ مانے، یہ ماننے والی بات ہے کہ عوام جھوٹے رہنماؤں سے امیدیں باندھتے ہیں جبکہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اسلئے ایک ہی جملہ زبان پر جاری ہوتا ہے رحم کیجئے عالیجاہ۔ بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کی کرسی اس بیوہ کی مانند ہے جسکا والد محترم جب بھی چاہے اسکا طلاق لے لے اور جب بھی چاہے اسکی شادی کسی اور سے کرا دے۔ کبھی اس کی شادی شریف انسان سے جو اسکی ہر بات مانے اور کبھی بااثر شخص سے جو کہ اسکا دفاع کر سکے۔اب جبکہ طلاق اور نکاح پر دستخط پہلے سے ہوں تو بھلا کیا کرے قاضی۔