کئی ماہ گزر گئے مگر کوئٹہ کی کونسل انتظامیہ نے اپنے بنیادی کام پر توجہ نہیں دی وہ ہے صحت وصفائی۔ میئر اور ڈپٹی میئر اختیارات اور مزید وسائل حاصل کرنے پہنچ گئے۔ صحت وصفائی کا عالم یہ ہے کہ کچرا اٹھانے والی گاڑیاں سڑکوں پر نظر نہیں آرہی ہیں۔ سینٹری یا صفائی کا عملہ بھی سڑکوں اور گلیوں میں نظر نہیں آرہا ہے۔ شہر میں ہر جگہ گندگی کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں۔ حسب سابق تمام گٹر اُبل رہے ہیں اور پورے شہر کو آلودہ کررہے ہیں۔ کئی دہائیوں پہلے کروڑوں روپے خرچ کرکے نواب بگٹی نے سریاب روڈ کی معیاری سڑک تعمیر کی تھی اب گٹر کا ابلتا ہوا پانی اس سڑک کو تباہ کررہا ہے۔ عنقریب یہ تباہ ہوجائے گا اور صوبائی حکومت کو اس کی تعمیر نو میں اربوں روپے درکار ہیں۔ سب سے پہلے ابلتے گٹر بند کئے جائیں تاکہ شہر میں بیماریاں نہ پھیلیں اور پورے ماحول کو آلودہ نہ کریں۔ اسی طرح تمام علاقوں میں دن شروع ہونے سے پہلے کچرہ اٹھالیا جائے۔ اگر کوئٹہ میونسپل انتظامیہ کے پاس گاڑیاں نہیں ہیں تو ہم اس بات کی تائید کریں گے کہ شہر کو دو درجن نئی کچرا اٹھانے والی گاڑیاں دی جائیں یا صوبائی حکومت ان پرانی گاڑیوں کی مرمت کا انتظام کرے تاکہ صفائی کا کام خوش اسلوبی سے سرانجام دیا جائے۔ میونسپل کے بنیادی کام کے لئے حکومت کو ہر طرح سے تعاون کرنا چاہئے۔ بلکہ ہم یہ مشورہ دیتے ہیں کہ سریاب روڈ کے تمام مکینوں کیلئے فراہمی آب اور نکاسی آب کا جدید نظام تعمیر کیا جائے تاکہ گٹر اُبلنے کا معاملہ ختم ہوجائے۔ پاکستان کو قائم ہوئے 67 سال ہوگئے مگر کوئٹہ شہر خصوصی طور پر سریاب روڈ کے تمام مکینوں کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ خصوصاً فراہمی آب اور نکاسی آب۔ ایک طرح سے ان علاقوں کے رہنے والوں کو دوسرے درجے کا شہری تصور کیا گیا ہے اور یہ طرز عمل ابھی تک جاری ہے۔ ہماری یہ شکایت بجا کہ گزشتہ تین بجٹ میں اتحادی حکومت نے نکاسی آب کی کوئی اسکیم کسی بھی بجٹ میں منظور نہ کراکر مقامی لوگوں کے حقوق کو پامال کیا۔ ان کی گزشتہ حکومتوں پر تنقید تھی کہ وہ سرداروں اور نوابوں کی حکومت تھی اور ان کا عوامی مسائل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مگر انہوں نے بھی سریاب روڈ کے 10 لاکھ مکینوں کے حقوق کو اس وقت پامال کیا جب انہوں نے نکاسی آب کی کوئی بڑی اسکیم نہیں بنائی، سڑک کے وسط سے گزرتی اور تمام آبادیوں کو نکاسی آب کی سہولیات فراہم کرتی۔ 56 ارب کے ترقیاتی بجٹ سے 55 ارب روپے ہر سال مختص کئے جاتے تو گزشتہ دو سالوں میں سریاب کے رہائشیوں کو جدید سہولیات فراہم ہوتیں اور شہر کا ماحول بھی آلودہ نہیں ہوتا۔ تقریباً 12 میل طویل سڑک کی دونوں جانب آبادی ہے، آبادی بھی دس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ عوامی نمائندہ کی حکومت ختم ہوئی۔ عوام اور خصوصاً اور نسبتاً غریب عوام کو نکاسی آب اور دیگر میونسپل سروسز کی سہولیات فراہم نہ کرکے ان کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ ان کے ساتھ کم سے کم انصاف نہیں ہوا۔ بعض حلقے اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ سریاب کے مکینوں کو بہتر صحت اور صفائی کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اگر سریاب اور دوسرے کم ترقی یافتہ علاقوں میں گندگی کا ڈھیر ہوگا تو بیماریاں ان علاقوں تک محدود نہیں رہیں گی بلکہ پورے شہر میں پھیل جائیں گی۔ سب سے زیادہ اُبلتے گٹر شہر کے وسط میں بھی موجود ہیں اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں آلودگی کا مطلب یہ لیا جائے کہ حکومت صحت کے شعبے میں زیادہ خرچ کرے۔ انہی وجوہات کی بناء پر شہر میں حکومت کے چھ بڑے ہسپتال قائم ہیں جبکہ اس قسم کی سہولیات پورے صوبے کو حاصل نہیں ہیں۔ لہٰذا میونسپل انتظامیہ کا پہلا کام صحت وصفائی ہے۔ شہر کو آلودگی اور بیماریوں سے پاک رکھنا ہے، بعد میں سیاست اور اپنے من پسند افراد اور سیاسی کارکنوں کو روزگار دینا۔