|

وقتِ اشاعت :   October 6 – 2022

درسگاہیں علم پھیلانے کا ذریعہ ہیں، قوموں کی ترقی اور معاشرے کو درست سمت پرڈالنے کے لیے اداروں کا مرکزی کردار ہوتا ہے ۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اگر آج اپنا ایک بڑا مقام بنایا ہے تو اس کی وجہ علمی درسگاہ ہیں۔ہمارے یہاں بدقسمتی سے تعلیمی اداروں تک کو سہولیات میسر نہیں تو دیگر علمی اداروں کی حالت زارکا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ گزشتہ چند روز سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ بلوچستان تربت اکیڈمی پر قبضہ کیاجارہا ہے، اکیڈمی کے ذمہ داران بارہا اپنااحتجاج بیانات کے ذریعے ریکارڈ کرارہے ہیں اور انتظامیہ کے ساتھ ان کی ملاقاتیں بھی ہورہی ہیں انہیں یہ تسلی دی جارہی ہے کہ قومی اداروں کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے اور ہر صورت میں قومی اداروں پر قبضہ جمانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بلوچستان کا علاقہ ضلع کیچ علمی حوالے سے سب سے اعلیٰ اور بلنددرجہ درکھتا ہے اس زرخیز ضلع نے اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاستدانوں سمیت مختلف شعبوں میں بہترین شخصیات کو جنم دیا اور یہ سلسلہ تاہنوزجاری ہے۔

ضلع کیچ میں تعلیم کی شرح بلوچستان کے دیگر اضلاع کی نسبت سب سے زیادہ ہے ادب، سائنس سمیت ہر شعبے میں یہاں کے نوجوانوں نے اپنا لوہا منوایا ہے۔ ضلع کیچ کے نوجوان علم کے حصول کے لیے کوئٹہ، کراچی، اسلام آباد، لاہور جیسے بڑے شہروں میں جاتے ہیں آمدن کم ہونے کے باوجود اپنی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں اور سلام ہیں ان والدین کو جن کی اتنی سکت نہیں کہ وہ اپنے بچوں کے اخراجات قدر برداشت کریں مگر اس کے باوجود فاقہ کرکے اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے اپنے اوپر مزید بوجھ لادھ دیتے ہیں اور اس کے ثمرات بھی سامنے ہیں کہ ضلع کیچ کے بیشتر نوجوان مختلف شعبوں میں اہم عہدوں تک پہنچ کر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں جس کی بڑی وجہ علمی رجحان ہے اور اس میں غیر نصابی سرگرمیوں کا کلیدی کردار ہے۔ ضلع کیچ لٹریری حوالے سے سب سے آگے ہے یہاں کے نوجوان سطحی علمی بحث ومباحثہ نہیں کرتے بلکہ دلائل کے ذریعے اپنا مدعا سامنے رکھتے ہیں جس کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ یہاں کے نوجوانوں کا علم کی جانب رجحان کتنا زیادہ ہے۔

نوجوان لڑکے اور لڑکیاں برابر اس میں شامل ہیں اس زرخیز ضلع میں علمی حوالے سے مزیدسرمایہ کاری کرنے کی بجائے یہاں اکیڈمی جیسے اہم ادارے پر قبضہ جمانے کی کوشش افسوسناک ہے جسے فوری طور پر روکنا چاہئے ۔بلوچستان تو پہلے سے ہی تعلیم کے حوالے سے پیچھے ہے مگر ضلع کیچ کے لوگوںکو آفرین ہے کہ انہوں نے مشکل وقت کے باوجود علم کا دامن نہیں چھوڑا اور اپنی ہمت سے اداروں کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ایک دور ایسا آیا کہ ضلع کیچ میں شدت پسندی کو پروان چڑھانے کے لیے سازشیں کی گئیں، تعلیمی اداروں کی بندش تک کامعاملہ سامنے آیا مگر یہاں کے نوجوانوں نے ہر فورم پر اس حوالے سے بلاخوف وخطر مقابلہ کیا ،جان کی پرواہ کئے بغیر شدت پسندی کو پروان چڑھنے نہیں دیا، نتیجہ سامنے ہے کہ شدت پسند شکست سے دوچار ہوگئے۔

اور ان کے مذموم عزائم خاک میں مل گئے۔ اس لیے ضروری ہے کہ قبضہ مافیا تاریخ سے سبق سیکھے ،اورحکومت سے بھی درخواست ہے کہ بلوچستان اکیڈمی تربت سمیت دیگر اداروں پر جو لوگ قبضہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے اوران اہم اداروں کو ان کے منتظمین کے حوالے کردیں اور قبضہ مافیا کو لگام دینے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں تاکہ ایسے زرخیز علاقے سے علم کی روشنی دیگر اضلاع تک بھی پہنچ سکے۔