بلوچستان میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں لوگوں کا ذریعہ معاش سرحدی تجارت، زراعت ، سرکاری ملازمتوں سے وابستہ ہے کیونکہ یہاں پرائیویٹ سیکٹر نہ ہونے کے برابر ہے صنعتیں نہیں ہیں اگرچہ سب سے بڑا صنعتی حب لسبیلہ میں واقع ہے مگر وہاں بھی غیر مقامی لوگ کام کرر ہے ہیں۔
پورے بلوچستان میں کوئی بڑا صنعتی زون نہیں ہے، ساحلی پٹی پررہنے والے افراد کا معاشی ذریعہ ماہی گیری ہے وہاں بھی الگ مسائل ہیں ٹرالر مافیا کی وجہ سے انہیں بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرناپڑتا ہے اگرکہاجائے کہ بلوچستان میں روزگار کے ذرائع انتہائی محدود ہیں تو غلط نہیں ہوگا گوکہ بلوچستان میں کچھ میگامنصوبے بھی چل رہے ہیں۔
مگر وہاں سے بلوچستان حکومت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا تو مقامی لوگوں کو کیاحاصل ہوگا ۔سی پیک کے حوالے سے بھی بہت سارے وعدے کئے گئے مگر اب تک بلوچستان کی صورتحال جوں کی توں ہے سی پیک سے جڑے بڑے منصوبوں سے دیگر صوبوں میں بڑے پروجیکٹس تکمیل تک پہنچ گئے مگر خود سی پیک کا مرکز اس سے مکمل طور پر محروم ہے، انہی ناانصافیوں کی وجہ سے بلوچستان حکومت سمیت سیاسی جماعتیں وفاق کے رویہ سے نالاں ہیں کہ بلوچستان کے معاملات کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتااور نہ ہی بڑے فیصلوں میں کسی کو شامل کیاجاتا ہے۔
خود مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں یہ باتیں کھل کر کہتی رہی ہیں بہرحال اب موجودہ مسئلہ اس وقت سب سے بڑا سامنے آرہا ہے وہ مکران کے سرحدی علاقوں میں ٹوکن سسٹم ہے جس سے مقامی افراد، تاجرسب ہی پریشان ہیں ،ان کا شکوہ ہے کہ ٹوکن سسٹم سے بھی ان لوگوں کو نوازا جارہا ہے جو زیادہ رقم دیتے ہیں جبکہ عام غریب لوگوں کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ بھاری بھرکم رشوت دیکر ٹوکن حاصل کرسکیں، منظور نظرافراد کو نوازا جارہا ہے جس پر تمام سیاسی جماعتیں سراپا احتجاج ہیں اور دھرنا بھی دے رہے ہیں ۔
متعدد بار ضلعی آفیسران کے ساتھ نشستیں بھی ہوئی ہیں مگر اس کا مستقل حل فی الحال نہیں نکالا گیا ہے، لوگ نان شبینہ کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں۔ پاک ایران سرحد سے گزشتہ کئی دہائیوں سے تجارت کا سلسلہ جاری ہے مگر حالیہ چند فیصلوں نے مقامی لوگوں کو مشکلات میں ڈال دیا ہے ،خدارا اس حوالے سے سوچا جائے کہ کس طرح سے سرحدی علاقوں کے لوگوں کو ریلیف فراہم کیاجاسکتا ہے، اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کرتے ہوئے انہیں باعزت روزگار کا موقع دیاجائے کیونکہ اس طرح کے عمل سے منفی رجحانات پروان چڑھتے ہیں، لوگ پریشانی میں مبتلا ہوکر سماجی برائیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
جس سے لوگ قانونی طریقے سے کاروبار کی بجائے اسمگلنگ کا راستہ اپنا تے ہیں۔نوجوانوں کو سرحد سے روزگار کے مواقع میسر نہیں آئینگے تو وہ منشیات سمیت دیگر جرائم کی طرف راغب ہونگے لہٰذا اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے وہاں کی سیاسی جماعتوں سے بات چیت کرکے راستہ نکالاجائے تاکہ خوش اسلوبی سے مکران کے سرحدی علاقے میں موجود معاشی مسائل حل ہوسکیں۔