|

وقتِ اشاعت :   October 17 – 2022

کراچی کی سیاست میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوتی جارہی ہیں، پی ٹی آئی مسلسل ایم کیوایم کے حلقے سے الیکشن جیت رہی ہے اوراس وقت کراچی کی بڑی جماعت ابھر کر سامنے آرہی ہے ۔ 2018ء کے عام انتخابات سے لے کر ضمنی الیکشن کے دوران کراچی میں ایم کیوایم کے حلقوں سے پی ٹی آئی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے جس کی ایک مثال گزشتہ روز این اے دو سوانتالیس کی نشست پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور اس دوڑ میں ایم کیوایم پاکستان، پی ایس پی، جماعت اسلامی سمیت دیگر کراچی کے اہم اسٹیک ہولڈرز دور دور تک دکھائی نہیں دیئے بلکہ عمران خان نے کلین سوئپ کردیا۔

ماضی میں ان حلقوں میں ایم کیوایم کاڈنکا بجتا تھا کراچی میں ایم کیوایم کے حلقوں سے جیتنا بہت بڑی بات ہوتی تھی مگر اب بالکل ہی ایم کیوایم کی شکست عام سی بات بن چکی ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایم کیوایم پاکستان کی موجودہ لیڈر شپ سے اردو بولنے والے خوش نہیں انہوں نے اتنے دہائی تک سندھ اور وفاق میں حکومت میں رہتے ہوئے بھی اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کیا ،اب بھی وہ وفاق میں حکومت کا حصہ ہیں اس کے باوجود بھی ایم کیوایم کے ووٹرز ان سے مطمئن نہیں ،کیا اب بھی ایم کیوایم کی ماضی کی لیڈر شپ اردوبولنے والوں میں مقبول ہیں؟ ایم کیوایم پاکستان، پی ایس پی اور فاروق ستارکے درمیان ٹکراؤ اس کے اسباب ہیں؟ سوالات بہت سارے ہیں مگر ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں آتا بلکہ وہ اپنی شکست کومبینہ دھاندلی سے منسوب کرتی ہے مگر یہ کہنا کافی نہیں ہوگاکچھ تو اندرون خانہ معاملات میں خرابی ہے کہ ایم کیوایم پاکستان کا اثر کراچی سے مکمل طور پر ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

جو جماعت اپنے ہی بااثر حلقوں سے شکست سے دوچار ہو تویقینا اس کی مقبولیت پر سوالات اٹھیں گے جبکہ موجودہ گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری جو ایم کیوایم پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں ان پر بھی ایم کیوایم کے اندر مختلف آراء پائی جاتی ہیں کہ پارٹی کی بعض اہم شخصیات کامران خان ٹیسوری کے گورنر سندھ بننے کے پارٹی فیصلے سے خوش نہیں ہیں جبکہ ایم کیوایم پاکستان کے ورکرز کی بھی ایک بڑی اکثریت اس کی مخالفت کرتی دکھائی دیتی ہے۔ بہرحال اس وقت ایم کیوایم پاکستان بہت بڑے سیاسی مسائل سے دوچار دکھائی دے رہی ہے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ آئندہ چند سالوں کے دوران ایم کیوایم پاکستان کی جگہ پی ٹی آئی لے گی جو نتائج الیکشن کے دوران سامنے آرہے ہیں اس سے تو یہی تجزیہ کیا جاسکتا ہے البتہ کراچی کے بڑے اسٹیک ہولڈرزجو اردو بولنے والوں کی نمائندگی کرتے ہیں وہ بھی اس دوڑ سے باہر دکھائی دے رہے ہیں ۔

اگر پاکستان پیپلزپارٹی کی بات کی جائے تو گزشتہ روز ملیر کے حلقے این اے دو سو سینتیس سے پیپلزپارٹی کے پرانے ورکرحکیم بلوچ نے بڑے مارجن سے عمران خان کو شکست سے دوچار کردیا ،اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے حلقوں پر خاص توجہ دے رہی ہے اور اپنے ووٹرز کو دوبارہ اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہی ہے۔ حکیم بلوچ کی بیس ہزار سے زائد کی لیڈ نے پی ٹی آئی سمیت کراچی کی سیاسی جماعتوں کو دھچکا لگادیا ہے ویسے بھی ملیر اور لیاری پیپلزپارٹی کے اہم گڑھ مانے جاتے ہیں ،2018ء میں یہاں سے پیپلزپارٹی کو شکست کا سامناکرناپڑا جس پر پیپلزپارٹی نے مبینہ دھاندلی کا الزام لگایا ۔اگر پیپلزپارٹی کے الزام کا جائزہ موجودہ الیکشن سے لیاجائے تو کسی حد تک زمینی حقائق کو دیکھ کر مطمئن کیاجاسکتا ہے مگر دیگر کراچی کی سیاسی جماعتوں کادوڑ سے باہر رہنا مستقبل میں ان کیلئے مزید چیلنجز پیدا کرے گی۔ اب بلدیاتی انتخابات پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں کہ کراچی سے معرکہ کون مارے گا اور کس حکمت عملی کے تحت وہ میدان میں اترینگے ۔بہرحال بلدیاتی انتخابات ہونے کے امکانات پر اب کوئی جماعت مطمئن نہیں ہے۔