جب سے پاکستان بنا ہے حکمرانوں نے بلوچستان کے توانائی کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ کبھی توانائی کے مسائل کو اولیت ہی نہیں دی۔ 67سالوں بعد بلوچستان کے بجلی کی ایک تہائی ضروریات کو پورا کیا جارہا ہے، دو تہائی ضروریات پر کوئی حاکم بات کرنے کو تیار نہیں۔ ظلم خدا کا بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے لیڈر اور پارٹیاں بھی حکومت سے یہ مطالبہ نہیں کرتیں کہ ان کے ووٹروں کو بجلی اور گیس فراہم کی جائے۔ شاذ و نادر ہی کسی سیاسی لیڈر یا سیاسی پارٹی نے یہ حکومت سے مطالبہ کیا ہو کہ بلوچستان میں بجلی کی ضروریات پوری کی جائیں۔ ایسی صورت میں بھلا کوئی وفاقی حکومت کیوں بلوچستان کے عوام کو بجلی اور گیس پہنچانے کی زحمت کرے۔ جب عوامی نمائندوں نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ بجلی اور گیس کی عوام کو فراہمی ضروری نہیں اسی وجہ سے حکومت پاکستان نے ایران سے بجلی خریدنے کے لئے اب تک 20سال کا عرصہ گزار دیا۔ اب تو پاکستان سعودی عرب کی سرپرستی میں اسلامی فوج کا حصہ بن گیا ہے ایسی صورت میں شیعہ بجلی خریدنے کا سوال ہی پیدا ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ ایران۔ پاکستان گیس پائپ لائن کا معاہدہ کب توڑا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں تاپی گیس پائپ لائن کا منصوبہ شروع کردیا گیا ہے جہاں سے دو سال بعد گیس پاکستان آئے گی، جلدی کی کیا ضرورت ہے۔ بہر حال سرحد پر موجود ایران سے گزشتہ 20سالوں میں بجلی بھی تو نہیں خریدی گئی، کون سی قیامت آگئی۔ اس لئے بلوچستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے امکانات محدود ہیں۔ دوسری جانب پنجاب کے دیہی علاقوں میں گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر خرچ کے لئے 45ارب روپے کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ سب مطالبے پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے کئے تھے۔ جب وزیراعظم کی سیکریٹریٹ سے صرف 4ارب روپے منظور ہوئے تو پورے پنجاب میں شور مچ گیا۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب اس احتجاج سے پریشان ہوگئے۔ بلوچستان میں آخری بار گیس پائپ لائن مستونگ سے قلات پہنچائی گئی تھی اس کو بھی 10سال سے زائد کا عرصہ گزرگیا۔ اس کے بعد ایک روپے کی سرمایہ کاری وفاقی حکومت نے بلوچستان میں نہیں کی۔ بہت زیادہ شور مچانے کے بعد وفاقی حکومت کی طرف سے یہ وعدہ سامنے آیا ہے کہ کوئٹہ سے خضدار تک ایک نئی اور بڑی پائپ لائن بچھائی جائے گی جس سے بلوچستان کے وسطی علاقوں کو گیس پہنچائی جائے گی۔ واضح رہے کہ بلوچستان کے بڑے بڑے شہروں میں صرف کوئٹہ کو گیس سپلائی کی گئی ہے۔ پہلی بار 67سال بعد یہ وعدہ پورا ہوا ہے کہ خضدار کو بھی گیس فراہم کی جائے گی جس سے ثابت یہی ہوتا ہے کہ بلوچستان کے وسائل ماسوائے سارے پاکستان کے لیے ہیں ماسوائے بلوچستان کے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کیا جائے، گیس بلوچستان کی ہے تو اہل بلوچستان کو سردیوں میں گیس کی اشد ضرورت ہوتی ہے تو انہیں سردیوں میں ا س قدرتی نعمت سے انہیں فائدہ ملنا چائیے لیکن ظلم خدا کا یہاں اہل بلوچستان کو گھریلو استعمال کے لیے بھی گیس دستیاب نہیں جبکہ پنجاب میں اسے سی این جی اسٹیشنوں پر گاڑیوں میں بھر بھر کر ضائع کیا جارہا ہے۔ اہل بلوچستان صرف مطالبہ ہی کرسکتے ہیں اور یہ ایک بار یہ مطالبہ ہے کہ مستونگ اور قلات کے ساتھ ساتھ کوئٹہ میں گیس کے پریشر میں اضافہ کیا جائے اور تمام بڑے بڑے شہروں خصوصاً خضدار، تربت، نوشکی، دالبندین، خاران کو بھی گیس فراہم کی جائے، گیس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں بجلی کے مسئلے کو بھی حل کیا جائے۔ وزارت پانی و بجلی کے ایک اعلیٰ افسر نے یہ انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان میں پاور ٹرانسمیشن لائن میں یہ استطاعت نہیں ہے کہ وہ 600میگاواٹ بجلی سے زیادہ کا لوڈ اٹھائے۔ لہٰذا پہلی بات یہ ہے کہ پورے بلوچستان کوئی قومی ٹرانسمیشن لائن کے ساتھ منسلک کیا جائے اور اس کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ دو ہزار میگاواٹ کا لوڈ برداشت کرسکے۔ پورے مکران، چاغی اور واشک، آواران کو قومی گرڈ سے منسلک کیا جائے اور قومی گرڈ سے بلوچستان کو 24گھنٹے بجلی فراہم کی جائے اگر بجلی کی پیداوار میں کمی ہے تو ایران سے بجلی فوری طور پر خریدی جائے۔ اس سے مکران، چاغی، نوشکی اور خاران کو بجلی پہنچائی جائے بلکہ بلوچستان گرڈ کو کوئٹہ سے منسلک کیا جائے تاکہ صوبائی دارالحکومت میں 24گھنٹے بجلی جاری رہے اور اس میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔ اسی طرح سے وسطی بلوچستان میں 20گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ختم کی جائے۔ وہاں کے لوگوں کا بھی بجلی پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور والوں کو۔ توقع یہ رکھنی چاہئے اگلے سال تک بلوچستان میں توانائی کے مسائل حل ہوں گے۔ ضرورت پڑنے پر بلوچستان کے سرحد پر ایران کی بجلی فروخت کے لئے موجود ہے اگر ایران سے بجلی کوئٹہ تک لائی گئی تو چاغی اور نوشکی پاکستان کا بہت بڑا صنعتی زون بہت جلد بن جائے گا۔