بلوچستان میں بے تحاشاوسائل کی موجودگی کا ہر ذی شعور برملااظہار کرتا ہے اور یہاں کے وسائل سے ملکی خزانے کو فائدہ پہنچانے کی باتیں بھی ہمیشہ مرکز میں براجمان جماعتیں کرتی رہتی ہیں جبکہ ملک کے بیشتر سیاسی تجزیہ کار بھی بلوچستان کو پاکستان کی ترقی کی کنجی قرار دیتے ہیں۔مگرافسوس وسائل کے ساتھ کئی دہائیوں سے مسائل سے دوچار بلوچستان کے عوام کی داد رسی نہیں کی گئی اورآج تک یہاں کے عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ گیس کی لوڈشیڈنگ سب سے زیادہ کوئٹہ میں ہوتی ہے یعنی بلوچستان کے داراخلافہ کو بھی گیس صحیح معنوں میں فراہم نہیں کی جارہی جبکہ بیشتر اضلاع میں تو گیس پائپ لائن تک نہیں بچھائی گئی‘ بلوچستان کے کھچ اضلاع ملک کے سرد ترین علاقے میں شمار ہوتے ہیں جہاں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے گرجاتا ہے ۔ ایسے عالم میں بھی شدید سردی میں یہاں کے عوام گیس سے محروم ہیں جس سے معمولات زندگی شدید متاثر ہوکر گئی ہے۔ یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے چلتا آرہاہے مگر اب تک اس کے تدارک کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ بلوچستان سے نکلنے والی گیس سے یہاں کے عوام کو محروم رکھنا ایک بہت بڑی زیادتی ہے جس کی ذمہ دار نہ صرف صوبائی بلکہ وفاقی حکومتیں بھی ہیں۔ بلوچستان کے سرد علاقوں میں گیس کی عدم فراہمی کے باعث یہاں کے عوام ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں اور اس جدید دور میں بھی وہ لکڑی سے شدید سردی کا مقابلہ کرتے ہیں بلوچستان کوترقی دینے کے دعوے تو اکثرشہ سرخیوں میں ہمیں دکھائی دیتے ہیں مگر زمینی حقائق بالکل اس کے برعکس ہیں‘ اگر واقعی وفاق بلوچستان کے ساتھ خلوص کا رشتہ رکھتا اور بلوچستان کی ترقی کیلئے کوشاں رہتا تو کم ازکم یہاں کے عوام کو انہی کی سرزمین سے نکلنے والی گیس ان کی دہلیز تک پہنچاتا مگر افسو س کہ آج بھی بلوچستان کے عوام گیس کی عدم فراہمی کے خلاف ہر وقت سراپا احتجاج دکھائی دیتے ہیں‘ مگر یہ احتجاج اتنے بے مقصد و بے معنی اُس وقت نظر آتے ہیں جب مرکز میں بیٹھے عوامی نمائندے اس پر ایکشن نہیں لیتے۔ بلوچستان کے مسائل سے جان چھڑانے کیلئے ہمیشہ وہی پرانا راگ الاپتے نظرآنے والے وفاقی نمائندے یہی کہتے ہیں کہ بلوچستان کو محروم کرنے میں یہاں کے اپنے لوگ ذمہ دار ہیں اور کبھی سردار اورنوابوں پر سارا ملبہ ڈالتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے بلوچستان کی توسط سے جتنے بھی معاہدے کیے ان پر بڑی خوشی کااظہارکیاجارہا ہے آج بھی اگر چین کی سب سے بڑی سرمایہ کاری جو ملک میں ہورہی ہے اُس کی وجہ بلوچستان ہے کیا اس میں کسی نے رخنہ ڈالنے کی کوشش کی‘ گزشتہ ڈھائی سالہ دور حکومت کسی سردار یا نواب کی تو نہیں تھی متوسط طبقے کے وزیراعلیٰ اور پشتونخواہ میپ جو کہ دونوں قوم پرست جماعتیں ہیں انہی کا دور تھا کیا ان کے دور حکومت میں بلوچستان میں گیس کے مسئلے کوحل کرنے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے جاسکتے تھے‘ ضرورت یہ ہے کہ بلوچستان کو سمجھا جائے اور یہاں کے عوام کے بنیادی مسائل حل کئے جائیں تاکہ بلوچستان کے عوام اس بات کوسمجھ سکیں کہ وفاقی حکومت اُن کی ترقی کیلئے کوشاں ہے۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بیشتراضلاع آج بھی گیس سے محروم ہیں اس کا ازالہ انتہائی ضروری ہے تاکہ اس شدید سردی کے موسم میں خواتین،بچے،ضعیف العمر افرادکو شدید مشکلات سے بچایا جاسکے کیونکہ بیشتر اضلاع میں گیس نہ ہونے کی وجہ سے شدید سردی کے دوران بچے اور بزرگ بیماری کاشکار ہوجاتے ہیں۔ وفاقی حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صوبے کے اِس اہم مسئلے کوحل کرنے کیلئے صوبائی حکومت کو فنڈز مہیا کرے اور گیس پائپ لائن بچھانے کے ساتھ ساتھ گیس کی فراہمی کو یقینی بنائے ‘ گیس بلوچستان کا مگر یہاں کے عوام محروم ہیں جو المیہ ہے سب سے پہلے یہاں کے عوام کو اس سے مستفید کرنے کی ضرورت ہے۔
گیس بلوچستان کا‘ بیشتراضلاع آج بھی محروم!
وقتِ اشاعت : January 7 – 2016