بلوچستان ملک کا پسماندہ ترین صوبہ ہے ۔ حکمرانوں نے بلوچستان کی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دی اور نہ ہی کبھی بلوچستان کو طویل معاشی منصوبہ بندی کا حصہ بنایا ۔ صوبائی حکمرانوں نے حکام بالا کے احکامات کے تحت سالانہ ترقیاتی پروگرام پر عمل کیا ا س میں زیادہ حصہ ایم پی اے حضرات کو دیا گیا جان بوجھ کر تاکہ ترقیاتی رقم ضائع ہوجائے اور صوبے کی آمدنی میں اضافہ ہو اور نہ ہی لوگوں کو روزگار ملے ۔ سالانہ 56ارب روپے ضائع ہورہے ہیں بعض لوگ طنزاً یہ کہتے ہیں کہ یہ رقم ایم پی اے حضرات کی ’’ پاکٹ منی‘ ‘ یعنی جیب خرچ ہے ۔ اس کا صوبے کے عوام کی ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ آج تک ان اخراجات کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا بلکہ صوبائی رہنما کسی ایک قابل ذکر ترقیاتی پروگرام کی نشاندہی نہیں کر سکتے ۔ 1985ء سے لے کر آج تک جب سے جنرل ضیاء الحق نے روپے سے لوگوں کے ضمیر خریدنے کی کوشش کی اس وقت سے آج تک 30سالوں میں یہ رقم ضائع ہوتی رہی ہے۔ ہم موجودہ وزیراعلیٰ کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ایم پی اے فنڈ بند کرکے 54ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگرام پر خرچ کریں جس سے معیشت کو ترقی حاصل ہو، حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو اور لاکھوں لوگوں کو روزگار ملے ،ایسا کرکے وزیر اعلیٰ تاریخ میں اپنا نام روشن کریں تاکہ آئندہ نسلیںیہ یاد رکھیں کہ ان کے دور میں لاکھوں لوگوں کو روزگار صرف معاشی ترقی کے منصوبوں پر عمل درآمد کے ذریعے ملا ہے اس میں بلوچستان کی بڑی خدمت یہ ہوگی کہ اس کے وسائل لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں گے اور بلوچستان ترقی یافتہ خطوں میں شامل ہوجائے گا ۔ ورنہ سالانہ پچاس ہزار نوجوان بے روزگار وں کی فوج میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اتنی بڑی تعداد میں بے روزگار نوجوان کبھی کوئی انقلاب برپا کر سکتے ہیں اور کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں، یہ ریاست اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کریں بلکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا حق سب سے زیادہ ہے سالانہ ہزاروں نوجوان تعلیمی اداروں سے فارغ ہورہے ہیں اور وہ بے روزگاروں کی فوج میں مسلسل اضافہ کررہے ہیں اس کی بھی ایک حد ہے اگر کبھی یہ لاوا پھٹ گیا تو زلزلہ آجائے گا سارا نظام الٹ جائے گا لہذا ہمارا وزیراعلیٰ کو مشورہ ہے کہ وہ اپنی معاشی پالیسی ترتیب دیں اوراس میں بڑی تبدیلی لائیں تاکہ معاشی منصوبہ بندی کا عمل شروع ہو اور وسائل کا زیادہ بہتر استعمال ہو ۔ یہی بہتر معاشی مستقبل کی نشاندہی ہوگی وفاقی حکومت نے بھی بلوچستان کی ترقی کے لئے انتہائی کم وسائل فراہم کیے ہیں ہر سال نصف سے بھی کم بجٹ بلوچستان پر خرچ ہوتا ہے آج کل گوادر اقتصادی راہداری کی پبلسٹی کے حوالے سے حکمرانوں نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ 47ارب ڈالر کے منصوبے میں بلوچستان کا حصہ صرف اور صرف 6کروڑ ڈالر ہے وہ بھی گوادر ائیر پورٹ کی تعمیر کے لئے ۔ اس منصوبے کا اعلان جنرل پرویزمشرف نے کیا اور کہا کہ 2002سے اس کی تعمیر گوادر بندر گاہ کے ساتھ شروع ہوگی، 13سال گزرنے کے بعد بھی گوادر ائیر پورٹ پر کام شروع نہ ہو سکا ۔ اس سال کے بجٹ میں صرف تین ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ منصوبہ پر لاگت کا تخمینہ کئی ارب روپے ہے ۔ اقتصادی راہداری کے منصوبے کے تحت اس کے لئے صرف چھ کروڑ ڈالر رکھے گئے ہیں اس پر کام مسلم لیگ کی حکومت کے تیسرے سال بھی شروع نہ ہو سکا ۔ بلوچستان کے لوگ اس پر مسلسل احتجاج کررہے ہیں کہ گوادر بندر گاہ کی وجہ سے اقتصادی راہداری کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور اس میں گوادر کو نظر انداز کیا گیا ہے اس کی بنیادی ضروریات کا خیال نہیں رکھاگیا ہے آج وہاں پینے کو پانی نہیں ہے کھارے پانی کو قابل استعمال بنانے کے پلانٹ پر اربوں روپے مولانا وزیر کھا گئے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کا ارادہ ہے ۔ ان منصوبوں سے لوگوں کو ایک لیٹر پانی پینے کو نہیں ملا ،اربوں روپے ڈکار لیے گئے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ساحل مکران کے تمام چھوٹے بڑے دریاؤں پر بند تعمیر کیے جائیں تاکہ گوادر اور ساحل مکران پر پانی کی ضروریات پوری ہوں ۔
بلوچستان پسماندہ ترین علاقہ
وقتِ اشاعت : January 11 – 2016