حالیہ بارشوں اور سیلاب سے ملک بھر کے معاشی نظام کو نقصان پہنچا جس میں صوبہ بلوچستان میں دو لاکھ ایکڑ سے زائد زمین پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔ بارشوں سے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کے باعث صوبے سمیت ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والی کئی سڑکیں تاحال بند ہیں گندم کی شدید قلت کے باعث صوبے میں آٹے کا بحران ہے فلور ملز بند ہو چکی ہیں جو فلور ملز کھلی ہیں ان کے مالکان نے بھی گندم کی عدم دستیابی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ حکومت کی غیر سنجیدگی کے باعث بلوچستان کو اس وقت شدید بحرانی کیفیت کا سامنا ہے ،حکومت نے آٹے کے اس بحران سے نمٹنے کے لیے روز اول سے کوئی حکمت عملی ہی مرتب نہیں کی ہے، ہر بار جب بھی ان کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے صوبہ میں آٹے کا بحران پیدا ہوتا ہے تو فوراً وفاق کی طرف انکی نظریں دوڑجاتی ہیں۔
گندم نہ ہونے کی وجہ سے فلور ملز سے اوپن مارکیٹ کو آٹا فراہم نہیں کیا جا رہا ۔ حالیہ سیلاب کی وجہ سے بھی سرکاری اور نجی گوداموں میں پڑی ہوئی گندم بڑے پیمانے پر خراب ہوئی ہے۔ یہ گندم گوداموں میں محفوظ مقامات کے بجائے کھلے آسمان تلے پڑاہوا تھا جو کہ سیلابی ریلوں میں بہہ گیا۔ جبکہ دوسری جانب رواں سال حکومتی سطح پر اوپن مارکیٹ سے صرف 2 لاکھ 95 ہزار بوری گندم کی خریداری کی گئی تھی۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان بھرمیں گندم کا بحران شدت اختیار کرچکا ہے گندم کے بحران کی وجہ سے 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 2300 سے تجاوز کر کے 2800 روپے تک پہنچ گئی ہے۔محکمہ خوراک بلوچستان کے مطابق بلوچستان میں گندم کی صرف 10 ہزار بوریوں کا اسٹاک باقی رہ گیا ہے۔بلوچستان میں گندم کے بحران کی وجہ سے شہریوں اور آٹا ملز مالکان کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ایک ذرائع کے مطابق اس وقت صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں آٹے کی فی کلو 125 روپے تک جاپہنچی ہے 50 کلو آٹے کی بوری 6400 سے 6500 روپے میں 100 کلو آٹے کی بوری 13000 روپے میں فروخت ہورہی ہے۔ مزید کچھ روز اگر یہی صورت حال رہی تو مارکیٹ میں آٹا ملنا مشکل ہو جائے گا دوسری جانب محکمہ خوراک کے حکام کے مطابق دیگر صوبوں سے اور محکمہ خوراک کے حکام سے اپیل کی ہے کہ اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے عوام کو سستے داموں آٹے کی فراہمی ممکن بنائیں تاکہ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی میں عوام کو ریلیف مل سکے۔
بلوچستان میں اسی فیصد سے زائد لوگوں کا ذریعہ معاش زرعی شعبے سے وابستہ ہے حالیہ سیلاب کی وجہ سے صوبے کے بڑے حصے کو شدید قحط نے لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔گزشتہ چار دہائیوں میں پہلی باربلوچستان اتنے بڑے پیمانے پر سیلاب سے متاثر ہوا ہے، حالیہ غیر معمولی بارشوں سے مقامی لوگوں کی اربوں روپے مالیت کی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے صوبے کا زرعی شعبہ ضرورت کے مطابق غذائی اجناس پیدا نہیں کر پا رہا۔ مقامی لوگ شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ حکومتی سطح پر متاثرہ لوگوں کو ملنے والی امداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ متاثرہ اضلاع میں رابطہ سڑکوں کی بندش کی وجہ سے دکانوں میں دستیاب بنیادی ضرورت کی اشیائے خورونوش ختم ہوتی جا رہی ہیں بلوچستان میں زرعی شعبے کو پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ حکومتی اعدادوشمار سے کئی گناہ زیادہ ہے، ”سیلاب سے متاثرہ، نوشکی، پشین، لسبیلہ ،جھل مگسی، نصیر آباد ڈویژن اور دیگر علاقوں میں لاکھوں لوگ متاثرہ ہوئے ہیں ِکئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ لوگوں کے پاس اشیائے خورونوش تو درکنار، کھانا پکانے کے لیے برتن تک دستیاب نہیں۔ مشکل کی اس گھڑی میں حکومتی سطح پر متاثرہ علاقوں میں غذائی قلت سے نمٹنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ نہیں اٹھائے جا رہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ سیلاب سے صوبے کے 34 میں سے 33 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ غذائی قلت کا مسئلہ بہت تیزی کے ساتھ صوبے کو لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اوپن مارکیٹ سے اشیائے خورونوش کی اب بلیک میں فروخت ہونے کی بھی شکایات سامنے آرہی ہیں۔ تاجروں کو ضرورت کے مطابق مطلوبہ اجناس مارکیٹ سے نہیں مل رہی ہیں ۔