|

وقتِ اشاعت :   January 15 – 2016

کالعدم تحریک طالبان نے ایک بار پھر پولیس اور بلوچستان کانسٹیبلری کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ ایک خودکش حملہ کیا گیا جس میں 15افراد ہلاک ہوئے اور 25دوسرے زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والے اہلکاروں کا تعلق بلوچستان پولیس اور بلوچستان کانسٹیبلری سے ہے۔ صرف ایک کا تعلق ایف سی سے ہے۔ باقی تمام لوگ مقامی ہیں جن کی لاشیں ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کی گئیں۔ یہ ایک اندوہناک واقعہ تھا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس کا تعلق مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی سے ہے۔ یہ افسوسناک امر ہے کہ ریاستی ادارے مذہبی اور فرقہ واریت سے متعلق دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کررہے ہیں۔ شاذ و نادر ہی کبھی مذہبی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہوئی حالانکہ انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اتاراہے۔ سب بے قصور اور معصوم لوگ تھے جن کو مذہبی دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ گزشتہ 20سالوں میں صرف چند ایک مذہبی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہوئی اور انتہائی کم تعداد میں ان کا پتہ لگاکر ان کو ہلاک کیا گیا ،ایک واقعہ تو حادثاتی تھا کہ پولیس نے ان کا پیچھا کرکے ہلاک کیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بلوچستان کے نامی گرامی مذہبی دہشت گرد تھے۔ صرف ایک واقعہ ہے جس میں سیف اللہ کرد کو نشانہ بناکر ہلاک کیا گیا ورنہ پوری ریاست کے پاس اس کے علاوہ کوئی مثال نہیں۔ مذہبی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ ہونے سے یہ شبہہ زیادہ تقویت پاتا ہے کہ ان کی سرپرستی سرکاری اہلکار کررہے ہیں اور وہ عام انسانوں کو فرقہ واریت کی بنیاد پر نشانہ بنارہے ہیں۔ عوام الناس میں اس شک کو دور کرنا ضروری ہے لوگوں کا یہ یقین دلان ضروری ہے کہ سرکاری اہلکار مذہبی دہشت گردوں کی حمایت نہیں کررہے ہیں اور ان کے سہولت کار اور اطلاعات فراہم کرنے والے سرکاری اہلکار نہیں ۔ کوئٹہ کے اندوہناک واقعہ کے بعد مذہبی دہشت گردوں کا ٹارگٹ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں۔ 15 پولیس والوں کی شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ تحریک طالبان جو ایک فرقہ وارانہ دہشت گرد تنظیم ہے اس نے پولیس کو نشانہ بنایا ہے۔ ہم اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ ان کا ہدف پولیو کی ٹیم تھی بلکہ ان کا واضح ہدف صرف اور صرف پولیس، بلوچستان کانسٹیبلری اور ایف سی تھی نہ کہ پولیو کے کارکن تھے۔ خودکش بمبار نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کو نشانہ بنایا،اس کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ خودکش بمبار کے سہولت کار اور ماسٹر مائنڈ کون تھے۔ آیا خودکش بمبار ہمیشہ کی طرح افغان تھا یا کسی مدرسے کا طالب علم تھا ان تمام معلومات کو عوام الناس کے لئے مشتہر کیا جائے تاکہ قوم کوطالبان کے ظالمانہ کارروائیوں سے آگاہی ملے۔