|

وقتِ اشاعت :   January 17 – 2016

کوئٹہ : سول سوسائٹی بلوچستان نے مطالبہ کیا ہے کہ HECمیں ہونے والی بے ضابطگیوں کا سختی سے نوٹس لے کر بلوچستان کے نوجوانوں کے شکایات کا ازالہ کیا جائے ادارے کی جانب سے بلوچستان کے لئے مختص کردہ کوٹے پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ ایک صحافی کی جانب سے رپورٹ سامنے آنے کے بعد سیکرٹری ایجوکیشن بلوچستان کی جانب سے ایکشن لیکر کمیٹی تشکیل دینا خوش آئند ہے لیکن اس کمیٹی کے کامو ں کا جائزہ لینے کے لئے سرکاری بیورو کریٹس پر مشتعمل ایک ایسی ٹیم تشکیل دی جائے جو اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات کرے اور حقائق منظر عام پر لائے۔ ان خیالات کا اظہار کنوینئر سول سوسائٹی بلوچستان سمیع زرکون، ایجوکیشن نیٹ ورک کے گل خان نصیر بلوچ و شازیہ احمد لانگو نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن (HEC)نے اپنی 2012-13ء رپورٹ شائع کی ہے کہ جس میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں بلوچستان کے نوجوانوں کو اپنے آئینی کوٹے سے آدھا حصہ یعنی 3فیصد حصہ مختص کیاگیا ہے۔ جوکہ بلوچستان کے نوجوانوں کے لئے نہ صرف ناانصافی کے مترادف ہے بلکہ ان کے لئے تعلیم کے مواقع محدود کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔انہوں نے کہا کہ پورے ملک کی یونیورسٹیوں کے طلبہ کو 8317اندرون اور بیرون ملک پی ایچ ڈی اور ایم فل میں سکالرشپ مہیا کی گئیں کہ جس میں بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات کے صرف12طلبہ کو یہ تعلیمی وظائف دیئے گئے جوکہ صرف0.14 فیصد بنتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایچ ایس سی کی جانب ڈیویلپمنٹ کی مد میں یونیورسٹی کو مالی گرانٹ دی جاتی ہے پاکستان کی سطح پر یونیورسٹیوں کو دی جانے والی ڈیویلپمنٹ گرانٹ کی مد میں12ارب سے زائد کی رقم ادا کی گئی جس میں بلوچستان کی یونیورسٹیوں کے حصے میں صرف4.09% آئی ہے۔ پورے ملک میں تقریباً130تعلیمی ورکشاپس اور کانفرنسز منعقد کی گئیں جبکہ بلوچستان میں ایک ہی کانفرنس منعقد کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین کے مطابق وفاقی اداروں میں بلوچستان کا 6فیصدکوٹہ مختص کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کا آئین شق نمبر37(اے) اس بات پر زور دیتا ہے کہ ملک کے وہ علاقے جو تعلیمی اور معاشی حوالے سے دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ پسماندہ ہیں ان علاقوں کے نوجوانوں کو زیادہ مواقع فراہم کی جانی چاہیے۔جبکہ اس کے برعکس ملک کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے ( HEC) کے رویے سے نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے بلکہ نوجوانوں میں احساس محرومی کی خلیج مزید گہری ہوتی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز جب ایک صحافی نے اس مسئلے کو اجاگر کیا اور سیکرٹری تعلیم عبدالصبور کاکڑ کی ذاتی کوششوں سے ایچ ای سی کی جانب سے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جوکہ اس بارے میں مزید چھان بین کرکے رپورٹ تیار کرے گی۔ اس کمیٹی میں سیکرٹری تعلیم کے علاوہ بیوٹمز کے وائس چانسلر، ایچ ای سی کے چیئرمین اور HEC ہی کے ایک نمائندہ رکن شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے دونوں اراکین اپنی سرکاری مصروفیات کی وجہ سے اس معاملے کو زیادہ وقت نہیں دے پائینگے۔اس لئے سول سوسائٹی یہ سمجھتی ہے کہ یہ ایک اچھی پیشرفت ہے لیکن ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں سرکاری بیوروکریٹس پر مشتمل ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جوکہ اوپربیان کردہ کمیٹی کی معاونت کرسکے اور اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات کرے اور حقائق کو منظر عام پر لائے تاکہ بلوچستان کے ساتھ نارواسلوک کاسدباب کی جاسکے اور تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھایا جاسکے۔