یوں دیکھتا ہوں نقش قدم ہائے رفتگاں
جیسے بچھڑ گیا ہوں کسی کارواں سے میں
(مشفق خواجہ)
بلوچستان کاخطہ سراوان ایک لحاظ سے کاریزوں (سیاہ آب) کی بیش بہا دولت سے مالا مال ہونے کے باعث بڑا زرخیز ہے تو دوسری جانب دانشمندی ،ذہانت اور علمی صلاحیتوں سے متصف شخصیات کے طفیل بڑا مردم خیز بھی ہے ۔ جس نے زندگی کے ہر شعبے میں بڑے نامور شخصیات کو جنم دیا ہے ۔ جنہوں نے اپنی فہم وفراست ، عقل ودانش اور بے پناہ صلاحیتوں سے قوم ووطن کا نام پوری دنیا میں روشن کیا۔ سراوان کی سنگلاخ چٹانوں اور پتھریلی زمین نے ایسی ایسی نابغہ روزگار ہستیوں کوجنم دیا ہے جن کے کارناموں پر ہم بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں ۔
بلوچستان کی فلاح وبہبود ، ترقی ار خوشحالی میں ان نامور سیاستدانوں ، قبائلی سر براہوں اور علمی وادبی شخصیات نے اپنی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بلوچستان کانام روشن کیاہے ۔ یہ خطہ ابتداء ہی سے علم و ادب اور سیاست کاگہوارہ رہا ہے۔ اس سرزمین نے سیاستدانوں صحافیوں اور شاعروں وادیبوں کی ایک بہت بڑی کھیپ کو جنم دیا ہے جنہوں نے کسی ستائش وصلہ کی پرواہ کیے بغیر علم وادب ، سیاست اور سماجی کاموں کے ذریعے قوم ووطن کی بیش بہا خدمات انجام دیں ۔سرزمین سراوان نے جن قبائلی اور سیاسی شخصیات اور دانشوروں کو جنم دیا ہے ان ناموں میں ایک نام سردار احمد خان سرپرہ کابھی ہے ۔ سردار احمد خان سرپرہ کانام ذہن میں آتے ہی ایک پختہ سیاسی شخصیت اور دانشمند وقبائلی رہنما ،ا یک مشفق ہمدرد، پرخلوص اور انسان دوست شخصیت کادمکتا چہرہ سامنے آتا ہے ۔ سردار صاحب سے تعلق اور عقیدت مندی نصف صدی کی نہ سہی ، چوتھائی صدی کی بات ضرور ہے واقفیت اوروہ بھی سرسری سی ، توبہت پرانی تھی لیکن باقاعدگی سے ملنا جلنا اس وقت بڑھ گیاجب آپ مجھے ملنے بلوچی اکیڈمی تشریف لائے تھے ۔ اورانہوں نے اس وقت کے گورنر بلوچستان جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ سے ٹیلی فون پر بات کرنے کی خواہش کااظہار کیا تھا چنانچہ میں نے انہیں گورنرصاحب سے بات کرادی تھی اور یہیں سے میری اور سردار صاحب کی قربت ودوستی کی ابتداء ہوئی اور انہوں نے از راہ شفقت مجھے اسلام آبادآ نے کی دعوت دی اور پھر جب کچھ عرصہ بعد مجھے اپنے ایک پلاٹ کی فروختگی کے سلسلے میں اسلام آباد جانا پڑا تو محترم سردار صاحب کے ہاں ٹھہرا ۔انہوں نے مجھے کمال شفقت اور محبت سے مہمان کی حیثیت دی ۔ بلوچستان کے اکثر لوگ اسلام آباد جاکر ہفتوں سردارصاحب کی مہمان نوازی سے مستفید ہوتے تھے ۔
اسلام آباد میں مجھے سردار صاحب کے ساتھ کچھ دن مل بیٹھنے کا موقع نصیب ہوا ۔ میں نے اسے ایک روایتی پرخلوص مہمان نواز بے حد شائستہ اور محبت کرنے والا قدر دان سردا ر پایا ۔ انہوں نے اپنی وضع دار ی اور روایات کے تحت میری خاطر مدارت میں کوئی کمی نہ چھوڑی ۔ انہوں نے میرے مرتبہ سے زیادہ مجھے شرف و عزت بخشا ۔ سردار صاحب نے مجھے عمر کے لحاظ سے بزرگ اور مہمان کی حیثیت سے قابل احترام حیثیت دی تھی جسے میں آج تک نہیں بھلا سکا اور اب یہ امر میری قابل فخر یادوں کاحصہ ہے ۔ سردار احمد خان ایک انسان دوست ، ترقی پسند ، زیرک اور سلجھے ہوئے قبائلی سربراہ تھے جسے قبائلی روایات ، رسومات او رقبائلی افراد کی نفسیات کابخوبی ادراک تھا ۔
سردار احمد خان کی طلسمی شخصیت سے متاثر ہوکر آج میں ان کی سوانح حیات پر مختصرروشنی ڈالنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں ۔
سردار احمد خان کی جہان رنگ وبو میں آمد
سردار احمد خان سرپرہ بلوچستان کے ایک دور افتادہ اور پسماندہ علاقہ کردگاپ (ضلع مستونگ) میں14 اگست1947ء یعنی 27 رمضان شب قدر کے مبارک اور سعد اوقات اور آزادی کے ماحول میں سرپرہ قبیلہ کے سردار خیل طائفہ ، سومارزئی کے سردار سرپرہ میر غلام حیدر خان کے آنگن میں آنکھیں کھولیں ۔ یہ تاریخ اس لحاظ سے بھی بختاور اور مبارک ہے کہ ان کی پیدائش سے تین دن پہلے یعنی 11اگست کو بلوچستان انگریزوں کی چنگل سے آزادی حاصل کی تھی اور عین اس دن پیدا ہوئے تھے جب (14 اگست1947 ) کو برصغیر کایہ خطہ پاکستان آزاد ہوگیا تھا ۔
روشن خیال اور اہل علم خاندان
سردار احمد خان نے صغیر سنی میں قرآن مجید اور دینی تعلیم اپنی مسجد کے پیش امام سے حاصل کی اور عصری ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ، کردگاپ ، کے ہائی سکول سے حاصل کی ۔ میٹرک کے بعد مستونگ کالج سے ایف اے کاامتحان پاس کیا۔ قبل ازیں سردار سرپرہ کے چھوٹے بھائی اور ان کے چچا میر نوروز خان اس خاندان کے پہلے تعلیم یافتہ فرد تھے جن سے متاثر ہوکر اس خاندان کے لوگ تعلیم کی طرف راغب ہوئے سردار احمد خان تعلیم سے بے حدشغف رکھتے اور تعلیم کی افادیت سے آگا ہ تھے اس لیے انہوں نے اپنے خاندان سمیت پورے قبیلے کو تعلیم کی ترغیب دیکر ان میں ذوق وشوق پیدا کیا اور اپنے ذاتی خرچہ اور امداد سے متعدد نوجوانوں کوڈاکٹر ، انجینئر اور دیگر شعبوں میں زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور باوقار ملازمت دلانے میں اپنی صلاحیتوں کو موثر انداز میں کارفرما یا ۔ اور اب سردار احمد خان کا پورا گھرانہ ہی نہیں بلکہ قبیلہ کی اکثریت تعلیم یافتہ اور برسر روزگار ہے ۔ آپ کے گاؤں میں متعدد ڈاکٹر ، انجنیئر اور پی ایچ ڈی ہیں ۔ سردار صاحب کے بھائیوں میں سے میرغلام حسن سرپرہ سابق ضلعی ناظم مستونگ ، ڈاکٹر شاہ زمان میڈیکل سرجن شیخ زید ہسپتال سریاب کوئٹہ ، ڈاکٹر غلام حسین سرپرہ ڈائریکٹر کالجز بلوچستان، ڈاکٹر سلطان احمد سربراہ شعبہ کان ، ناک بولان میڈیکل کالج کوئٹہ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ جبکہ آپ کی بیٹی اور بیٹے سب تعلیم کے زیور سے بہرہ ور ہیں ۔ آپ نے دو شادیاں کی تھیں پہلی شادی نوشکی کے سردار علم خان بادینی کی بیٹی سے کی تھی جس کے بطن سے پانچ نرینہ اولاد اور ایک بیٹی تولد ہوئی ۔ بیٹوں میں میر غلام حیدر سرکاری ملازم ہیں ۔ جبکہ دیگر بیٹوں میں ڈاکٹر طارق لاہور سے FCPS کررہے ہیں ۔ میرہمایوں خان قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں اور میر محمد قاسم BUTIM میں زیر تعلیم ہے ۔ جبکہ محمد عاصم خان نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے جسے سردار صاحب کی وفات کے بعد 4 اکتوبر2015ء کو قبیلہ نے اپنا نیاسردار منتخب کرکے ایک پروقار تقریب میں اس کی دستار بندی کی ۔ سردار صاحب کی اکلوتی بیٹی گودی گل افروز ڈاکٹر ہیں اورسول ہسپتال کوئٹہ میں ملازمت کررہی ہیں ۔ سردار صاحب نے دوسری شادی ایبٹ آباد کے ایک معزز خاندان سے کی تھی اس بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہے ۔ سردار احمد خان جوان ہوتے ہی اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کیلئے زمینداری کے کاموں میں دن رات مشغول ہوکر حتی الوسع اپنی عملی کارکردگی کابہتر انداز میں مظاہرہ کرتا رہا اور ان کی زندگی کے ابتدائی ایام میں مالی مشکلات سے بھی واسطہ پڑا لیکن انہوں نے اپنی شبانہ روز محنت ومشقت اعلیٰ کردار مثبت سوچ اور استقامت سے اپنی تقدیر بدل ڈالی اور اپنے حالات کو سنوارا اور یوں اس کی محنت شاقہ ثمر آور ہوئی کہ اب اس کے باغات کثیر آمدنی کا سبب بنے ہیں اور وہ خود علاقے میں ایک نہایت کامیاب اور ترقی پسند زمیندار کی حیثیت سے یاد کئے جاتے ہیں ۔
سردار ہو تو ایسا ہو۔ سردار احمد خان نے اپنی دانشمندی اور انسان دوستی کے نیک جذبات کے تحت اپنے قبیلے اور بلوچ قوم کے لئے قابل رشک اور مثالی کردار ادا کیے ان کے دل میں انسانوں کی محبت موجزن تھی وہ ایک سچے محب وطن کاسوچ رکھتے تھے ۔ ان کوقبائلی دستور ، رسوم وروایات پر کامل دسترس حاصل تھا اور انہیں قبائلی ٹکریوں سرداروں اور عام لوگوں کی نفسیات کا بخوبی ادراک تھا ۔ انہوں نے قبائلی تنازعات حل کرانے میں ہر اول دستے کاکردار ادا کیا اور کسی بھی فیصلے میں روایتی چارک (چوتھائی ) نہیں لیا جن کی وجہ سے ان کی عزت اور قدر ومنزلت میں اضافہ ہوا اور تمام قبائل میں بہت مقبول اور قابل صد احترام سردار سمجھے جاتے تھے ۔ وہ ہر فیصلے میں اپنے قبیلہ کے سفید ریش اور دانشوروں سے مشاورت کرتے اور ان کی رائے کاصدق دل سے احترام کرتے تھے ۔ اس طرح بین القبائل تنازعات میں انتہائی پرخلوص ، دیانتدارانہ اور غیر جانبدارانہ کردار ادا کرتے تھے ۔ اس کی ایک مثال لانگو لہڑی قبائل کے پیچیدہ خونی تنازعہ کی ہے جس میں انہوں نے اعلیٰ کردار ، مثبت سوچ ، نیک جذبات اور دانشمندانہ کردار ادا کیا لیکن انہوں نے اس فیصلے میں اپنے روایتی حصہ چارک( 1/4) کی صورت میں آٹھ لاکھ بیس ہزار روپے لینے سے انکار کرتے ہوئے برملا کہا کہ میں نے خدا کی رضا اور قبائل میں امن وامان قائم رکھنے اور مزید خون خرابہ کاسدباب کرنے کے لئے فیصلہ میں حصہ لیا تھا ۔میرا ضمیر مجھے ناجائز طور پر اس قسم کی رقم لینے سے روکتا ہے ۔ سردار احمد خان ہمہ صفت شخصیت کے مالک تھے وہ بے حد شفیق ، نرم مزاج اور دردمند طبیعت کے مالک تھے ۔ وہ کسی کابرا نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی کسی کو زبان یاعمل سے آزار کیا ۔ اہل ضرورت کی دستگیر ی کرنا ان کاشیوہ تھا ۔ میں بہت سے بڑی عمدہ صفات رکھنے والی شخصیات سے واقف ہوں جو حقیقی اہل غرض کے لئے دوسروں سے رابطہ یاسوال کو اپنی خودداری یاوقا ر یا انا سمجھتے ہیں ۔ جومیرے نزدیک یہ صفت قبائلی اور معاشرتی تناظر میں ایک بڑا ضرر رساں انسانی عیب ہے ۔ سردار احمد خان کی مہمان نوازی بے مثال تھی ۔ ان سے مل کر زندگی کی اعلیٰ قدروں پر یقین اور پختہ ہوجاتا تھا وہ مروت اخلاص انسانیت شرافت اور حسن اخلاق کاایک نادر نمونہ تھے ۔ سستی شہرت اور نام ونمود سے بے نیا زہوکر جس طرح انہوں نے پوری زندگی عوامی کاموں اور خلق خدا کی خدمت کے لئے وقف کردی تھی اس کی مثال ہمارے معاشرے میں اب نہیں مل سکتی ۔
سردار احمد خان کے جملہ اوصاف میں یہ وصف نمایاں ترین تھا کہ تمام عمر انہوں نے انتہائی بے غرضی اور شہرت سے دور رہ کر سماجی خدمت کو اپنایا ان کی زندگی سستی شہرت کے خواہش مندوں اور سطحی کام کرنے والوں کے خلاف عملی جہاد کی مثال تھی ۔ سیاسی لحاظ سے سردار احمد خان جمعیت العلماء (ف)سے وابستہ تھے لیکن انہوں نے کبھی پارٹی سے عہدے کی خواہش کااظہار نہیں کیا ۔ ان کا توکل اللہ پر تھا اس لئے کبھی ذاتی محافظ( باڈی گارڈ) نہیں رکھا اور نہ ہی اپنی حفاظت کے لئے کوئی اسلحہ وغیرہ ساتھ رکھتا ۔ یہ درویش صفت سردار کلاشنکوف کلچر کے خلاف تھے ۔ سردار احمد خان گو کہ سرپرہ قبیلہ کے سردار وسربراہ تھے لیکن شرافت انسان دوستی معاملہ فہمی اور بے لوث عوامی خدمات کی شاندار صفات کی وجہ سے علاقے میں سکونت پذیر ودیگر قبائل کے لوگ بھی انہیں اپنا ہی سردار سربراہ اور غم خوار سمجھتے تھے ویسے سردارصاحب کاپورا قبیلہ (سرپرہ ) ایک پرامن بے ضرر ، اہل علم روشن خیال اور ترقی پسند افراد پر مشتمل ہے ۔
قبیلہ سرپرہ سابق جس کے لغوی معنی جنگ میں پہلا صف ہے یہ قبیلہ ریاست قلات (بلوچستان) اور افغانستان کے مابین سرحد پر قدیم سے آباد ہونے کی وجہ سے ہمیشہ نہایت ا ہم رہا ہے ضلع مستونگ میں خصوصاً گرگینہ اور کردگاپ میں اکثریت سے آباد ہے جہاں ان کی آبائی اراضیات ہیں لیکن ان کے بعض طائفے کانک ،پڑنگ آباد ،مرو، نیمرغ، شوراوک اور ریک کے علاوہ سیستان میں بھی آباد ہیں ۔ کچھی میں ان کی قبائلی ’’غمی‘‘ جاگیر گوگڑو (بالا ناڑی ) میں واقعہ ہے یہ قبیلہ غمی لشکر میں مینگل کے ساتھ شامل کردیئے گئے تھے جوتیس نفر غم لشکر دیا کرتاتھا ۔ اور پلوشریک بین القبائل اشتراک میں شاہوانی اور محمد شہی قبائل میں شامل ہے ۔یہ قبیلہ سات بڑے طائفوں میں منقسم ہے جوان ناموں سے موسوم ہیں سومارزئی ، جاڑزئی ، آدم زئی ، توتکزئی ، شمبدانی مرائی اور ر ودین زئی پر مشتمل ہے اور مرائی ، شمبدانی گرگینہ میں اور سوماروزئی ، آدم زئی ، توتکزئی اور جاڑزئی کردگاپ میں آباد ہیں جبکہ رودین زہی کانک اور گرگینہ میں آباد ہیں ۔ یہ قبیلہ افغان سرحد کے قریب سکونت رکھنے کی وجہ سے بہت اہمیت رکھتا ہے اور سابقہ ایام میں شوراوک کے بڑیچوں سے مسلسل برسر پیکار رہا ہے ۔ 1901ء میں اس قبیلے کی آبادی 8850تھی اور موجودہ آبادی پچاس ہزار سے زائد ہے ۔
ریاستی دور میں خان قلات سرپرہ سردار کی دستار بندی کے موقع پر سردار کو ایک کشمیری شال زربفت کاایک تھان اور نفیس بانات (ماہوت) کاایک چغہ عطا کرتا تھا ۔ جبکہ برطانیہ کے دور میں سردارکو ذاتی خدمات (ISA)کے عوض معاوضہ ملتا تھا۔جبکہ اس وقت سردار کودو سوپچیس روپے الاؤنس ملتا تھا۔
سرپرہ قبیلہ میں کئی نامور شخصیات گزری ہیں جن میں سردار امام بخش(1880) میر تاج محمد ، آدم خان ،(چاغی لیویز کاجمعدار تھا )ٹکری ابراہیم خان اور سانول خان سورمازئی لشکر خان اور مراد خان مرائی ، الیاز خان توتکزئی ، بدل خان جاڑزئی ، دلمراد شمبدانی اور جمعہ خان رودین زئی قابل ذکر ہیں ۔( قبائل 198) موجودہ وقت میں اس قبیلے کے طائفوں کے سربراؤں میں حاجی ٹکری خلیل احمد سومارزئی ٹکری مبارک خان جھاڑزئی ٹکر ی نوراحمد آدم زئی ٹکری سیف اللہ نوتکزئی ٹکری ایوب داؤد خان شمبدائی ٹکری محمد یار رودین زئی شامل ہیں۔
سرپرہ قبیلہ کے دیگر نمایاں شخصیات میں جنا ب چیف جسٹس محمد نور مسکان زئی ،کرنل ریٹائرڈ محمد ہاشم، ڈاکٹر عبدالرزاق صابر وائس چانسلر تربت یونیورسٹی ،پروفیسر عبدالقیوم سوسن ،ڈاکٹر محمد وفا سرپرہ ،منظور احمد سرپرہ ،محمد یونس سرپرہ ،سابق ڈی ایس پی عبدالباقی سرپرہ ،چیرمین محمد آصف اور حاجی عباس سرپرہ قابل ذکر ہیں اس قبیلے کے گزشتہ سرداروں میں سے سردار میر امام بخش کے علاوہ سردار قادر بخش سرپرہ اور سردار جنگی خان سرپرہ اس قبیلے کے نامور سردار ہو گزرے ہیں۔
سفرآخرت
سردار احمد خان ایک عظیم انسان ، زندہ ضمیر سردار ، حساس دل رکھنے و الا قبائلی سربرا ہ اور بے لوث سماجی کارکن تھے ۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی انسانوں کی خدمت کے لئے وقف کررکھی تھی ۔ انہوں نے قبائلی تنازعات کی سدباب ، عوامی مسائل کے خاتمہ اور علاقے کی ترقی کے لئے بھرپور انداز میں احسن کردار ادا کرکے ایک مثالی سردار کاکردار ادا کیا۔ سردار احمد خان سرپرہ ایک خدا ترس ترقی پسند علم دوست اور امن پرست انسان تھے ۔ انہوں نے کسی کو ایزا نہیں پہنچایا اور نہ ہی کسی کی دل آزاری کاموجب بنا ۔ بلکہ ایک خیر اندیش شخصیت کی صورت میں اپنی تمام عمر خیر خواہی، صلح جوئی ، مصالحت کیشی کے نیک جذبات کے مساعی جمیلہ سے علاقے کی ترقی علم کی روشنی پھیلانے اور ہمہ نوع قبائلی تنازعات اور سلگتے عوامی مسائل کو دیانتداری اور موثر انداز میں نمٹاتے رہے اور علاقے میں مثالی امن قائم کرکے پرسکون ماحول کی فضاء قائم کی ۔ اوریوں 14 اگست1947سے 23ستمبر2015ء تک 68 سال ایک مہینہ نو دن اس جہاں آب و گل میں بسر کیے اور 23ستمبر2015 ء 9 بجے شب ڈاکٹر ز ہسپتال پٹیل روڈ کوئٹہ میں داعی اجل کو لبیک کہا ۔ ان کی خدمات کو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی ۔
وہ جو پیوند زمین ہوکے نکھر جاتے ہیں
اور نسلوں کی ضمیروں میں اترجاتے ہیں
(احمد ندیم قاسمی )
سردار احمد خان سرپرہ
وقتِ اشاعت : January 20 – 2016