|

وقتِ اشاعت :   January 23 – 2016

کوئی گھر ہو کاروبار یا ریاست سبھی ادارے اعتماد کے سہارے ہی چلتے ہیں، وہاں بسنے والے اور کام کرنے والے ایک دوسرے پر اعتمادکے سہارے ہی اپنی زندگیاں گزارتے ہیں، اپنے رشتوں کی دیواریں اعتماد اور بھروسے کے مضبوط بنیادوں پر تعمیر کرتے ہیں۔ یہی حال دوستی کے پاکیزہ رشتے کا ہے جو اعتماد کی سیڑھیوں پر قدم رکھ کر پختگی کی جانب گامزن رہتا ہے۔ یہی وہ اعتماد ہے جو شک کی گنجائش ختم کر کے ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے پر اکساتا ہے۔ اعتماد اور بھروسے کی فضاء میں سانس لینے والے لوگ ہوں، معاشرے ہوں یا ریاستیں، وہ اس رشتے کو نبھانے کے لیے خواہشات اور خودغرضی کو بالائے طاق رکھ کر خیرخواہی اور خیرسگالی کے تحت فیصلے کرتے ہیں لیکن جب اسی رواداری کو پامال کیا جاتا ہے تو بے اعتمادی کی فضاء اس قدر زہرآلود ہو جاتی ہے کہ یہی دوست، یہی رفاقت، یہی شہری اور یہی وفاقی اکائیاں ایک دوسرے کی جان لینے پر تل جاتے ہیں۔ شاید اعتماد نام ہی ایسی چیز کا ہے جس کی اہمیت کا اندازہ اس کے کھونے کے بعد ہوتا ہے۔ ایک فرد کا دوسرے فرد پر یا ایک شہری کا دوسرے شہری پر یا ایک صوبے کا دوسرے صوبے پر سے اعتماد ختم ہو جائے تو ہر معاملہ، ہر معاہدہ اور ہر منصوبہ شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگتا ہے۔ بے اعتمادی ایک ایسا دشمن ہے جس کا وار دونوں فریقوں کو زخم دیتا ہے، جس سے لگنے والی چوٹ گہری اور کاری ہوتی ہے، ان زخموں کے بھرنے میں وقت لگتاہے اور اگر یہ بھر بھی جائیں تو نشان ضرور چھوڑ جاتے ہیں جو ماضی کی تلخ یاد بن کر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ایک وفاق کی ڈوری میں بندھے صوبوں کا بھی یہی حال ہے، ماضی کی بے اعتمادیوں کا بوجھ اس قدر ہے کہ آگے کی راہ سمجھائی نہیں دے رہی۔ اقتصادی راہداری کا آغاز ہی عدم اعتماد کی فضا میں ہو رہا ہے، جہاں پنجاب کے سوا تینوں صوبے اور گلگت بلتستان اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان تحفظات اور خدشات کو دور کرنے کے لیے وفاقی اداروں سے وابستہ افراد اور وفاقی وزراء بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے دورے کر رہے ہیں۔ تمام کوششوں کے باوجود چھوٹے صوبوں کے شہریوں اور قیادت کے خدشات اور تحفظات دور نہیں کیے جا سکے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کی جانب سے منعقد کی جانے والی کل جماعتی کانفرنس جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین شریک ہوئے،چھوٹے صوبوں میں پائے جانے والی بے اعتمادی کا واضح ثبوت ہے جو اس منصوبے سے متعلق ابہام پیدا کر رہی ہے۔ اس بداعتمادی کی ذمہ داری وفاق کے غیر واضح موقف اور ماضی کے اس غیر جمہوری رویے پر عائد ہوتی ہے جو اس سے قبل بھی قومی اہمیت کے منصوبوں کو متنازع بنا چکے ہیں۔ چھوٹے صوبوں کی ناراضی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اب وفاق کی یقین دہانیوں اور وعدوں پر بھروسہ نہیں رہا۔ اب کی بار وہ اس خوش گمانی پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں کہ اس اقتصادی راہداری اور اس سے منسلک منصوبوں کے تعین کے دوران پسماندہ طبقات کی خوشحالی کا خیال رکھا جائے گا اور ماضی میں روا رکھے گئے رویے سے پیدا ہونے والے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ وفاق سابقہ غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کرتا، لیکن اس مرتبہ بھی نہ تو پسماندہ طبقات کے احساس محرومی کا خیال رکھا گیا اور نہ ہی انہیں اعتماد میں لیا گیا، بلکہ مقامی افراد کے احساس محرومی میں اضافے کے نئے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں بلوچستان اسمبلی میں اجلاس کے دوران یہ بات زیر غور آئی کہ وفاقی اداروں اور کارپوریشنوں میں مختص کوٹے پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا اس معاملے پر پارلیمان اور صوبائی اسمبلی میں آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر بلوچستان ہاؤس اسلام آباد میں تعینات ملازمین کی فہرست دکھائی گئی جن کی اکثریت کا تعلق دیگر صوبوں سے تھا۔ صوبائی وزیر برائے سروس اینڈ جنرل ایڈمنسٹریٹیو ڈیپارٹمنٹ نے ایوان کو بتایا کہ یہ وہ آسامیاں ہیں جن پر تعیناتیاں سابقہ ادوار میں کی گئی تھیں۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کے کوٹے پر سختی سے عملدرآمد کرانے کے لیے وفاق کو لکھا جائے اور سابقہ غفلتوں کی تحقیقات کی جانی چاہئیں۔ اس معاملے پر ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ دوسری جانب نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن اسمبلی شمع اسحاق نے اس حوالے سے ایک تمثیل پیش کی؛ دو بھائی جن کے مرحوم باپ نے وراثت میں ان کے لیے ایک کمبل، ایک کجھور کا درخت اور گائے چھوڑی تھی۔ بڑے نے فیصلہ سنا دیا کہ کمبل دن کو چھوٹے بھائی کی تحویل میں رہے گا اور رات کو بڑے کی، کجھور کے درخت کا اوپری حصہ بڑے بھائی کا تو نچلا حصہ چھوٹے کا جبکہ گائے کا اگلا حصہ چھوٹے کا تو پچھلا حصہ بڑے بھائی کا ہو گا۔ کئی مہینے تک چھوٹا بھائی اس تقسیم پر عمل کرتا رہا بلآخر چھوٹے بھائی کو جب اس عیاری کی سمجھ آئی تو اس نے اپنا حق حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، پہلے اس نے گائے کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو بڑا بھائی اسے دودھ میں شراکت دار بنانے پر آمادہ ہوا۔ اسی طرح کمبل کو دن کے وقت پانی میں بھگونے کی وجہ سے رات کو بڑا بھائی کمبل سے محروم رہا تب وہ اکٹھے کمبل استعمال کرنے پر راضی ہو گئے، چھوٹے بھائی نے کجھور کا تنا کاٹنے کی ٹھانی تو بڑے بھائی نے اسے کجھور کے فصل میں برابر کا حصہ دار قرار دے کر معاملہ طے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح نہیں ہو سکتا کہ چھوٹا صوبہ ہمیشہ راضی رہنے کا طرز عمل اپنائے رکھے ہم بھی چھوٹے بھائی کی طرح اپنا حصہ مانگنے پر مجبور ہیں۔ وفاق کو اس معاملے پر ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں احساس محرومی موجود ہے۔ اسی محرومی کا نتیجہ کئی مسلح بغاوتوں کی شکل میں سامنے آیا ہے اب یہ احساس محرومی بے اعتمادی کی ایسی دبیز دھند کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کے اس پار کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ کوئی دوست بانہیں پھیلائے چلا آ رہا ہے یا کوئی دشمن تلوار سونتے۔ بلوچوں کے پاس وفاق پر بھروسہ نہ کرنے کی بہت سی وجوہ ہیں۔ بلوچستان سے نکلنے والی معدنیات کو دوسرے صوبوں پر خرچ ہوتا ہوا دیکھ کر یہاں کا باسی احساس محرومی کا شکار ہو جاتا ہے، اخبارات میں سرکاری اسامیوں کے اشتہارات میں بلوچستان کا نام نہ دیکھ کر نوجوانوں میں مایوسی پھیلتی ہے، شاہراہوں سے محروم بلوچستان کے علاقے دیگر صوبوں میں سڑکوں کی فراوانی سے اپنے آپ کو نظرانداز شدہ محسوس کرتے ہیں، تعلیمی اداروں تک رسائی نہ ہونا اور بلوچستان میں معیاری تعلیمی اداروں سے محرومی یہاں کے نوجوانوں کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع محدود کر دیتی ہے، یہاں کے لوگ اور معاشرہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ جناب سعد رفیق نے اے پی سی میں سوئی کو نظرانداز کرتے ہوئے پہلے پنجاب کو گیس کی فراہمی کو ناانصافی قرار دیا اور کھلے دل سے اس غلطی کا اعتراف کیا۔ جب غلطیاں ہو جاتی ہیں تو انہیں تسلیم کرنا اور پھر ان کا تدارک ضروری ہوتا ہے۔ وفاق اور اقتصادی راہداری منصوبے پر بلوچستان کا اعتماد بحال کرنے کے لیے یہاں کے نوجوانوں کو تعلیم اور ہنر فراہم کر کے انہیں وفاق کے زیرانتظام شعبوں میں ملازمتیں دینے کی ضرورت ہے تاکہ پاک چین اقتصادی راہداری اور اس سے پیدا ہونے والے مواقع کے لیے بلوچستان کے نوجوانوں کو تیار کیا جا سکے۔ اس منصوبے میں شامل صنعتی علاقوں میں سے بلوچستان کو اس کا منصفانہ حصہ دیا جانا چاہیئے اور اس بات کا تعین کیا جانا چاہیئے کہ مستقبل میں کتنے بلوچ ان منصوبوں سے پیدا ہونے والے روزگار کے مواقع سے مستفید ہو سکیں گے۔ ان مواقع کے حساب سے مقامی نوجوانوں کو باصلاحیت اور ہنرمند بنانا ضروری ہے۔ بلوچستان میں عائد تعلیمی ایمرجنسی پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کرکے یہاں تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ گوادر کی بندرگاہ پر کام کرنے کے لیے یہاں کے لوگوں کو مختلف ہنر مند بنانتے اور پیشہ ورانہ ڈگریاں دینے کے لیے ادارے قائم کرنا ہوں گے۔ یہاں کی محرومیاں دور کرنے کے لیے اگر فوری اور موثر اقدامات کیے جائیں تو اعتماد کی فضاء بحال ہو سکتی ہے۔