ملک میں مزید مہنگائی کی نوید وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے سنادی۔ مہنگائی کی وجہ آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ ہے۔ آئی ایم ایف سے گزشتہ کئی برسوں سے قرضہ لیا جارہاہے۔ آج تک عوام کو بہتر زندگی گزارنے کا موقع میسر نہیں آیا، بیشتر لوگوں کے پاس اپنا گھر تک بھی نہیں ہے ، وہ سہولیات سے مکمل محروم ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہواکہ عوام کو قربانی کابکرابنایاجارہا ہے ہر بار عوام سے یہ وعدہ کیاجاتا ہے کہ موجودہ حالات گھمبیر ہیں مجبوری میں مہنگائی کررہے ہیں ہمیں کوئی شوق نہیں کہ عوام پر مزید بوجھ ڈال دیں۔ اب یہ روایتی جملے بن چکے ہیں، کیا اس سوال کا جواب دیاجاسکتا ہے کہ آئی ایم ایف سے جو قرض لیاجارہا ہے اس سے عام لوگوں کو کیا فائدہ ملا ہے ،ان کے لیے روزگار سمیت دیگر سہولیات کے متعلق کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں ،
ہر روز حالات بدتر ہوتے جارہے ہیں عام لوگوں کے لیے اب تو سانس لینا بھی مشکل ہوگیا ہے ۔ جس چیز پر ہاتھ رکھتے ہیں ان کی قوت خرید سے باہر ہوتی ہے لوگ تو روز مرہ کی اشیاء تک خرید نہیں سکتے اب تو ایسے حالات بن رہے ہیں کہ غریب روٹی سے تو جائے گا ان کے بچوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگ چکا ہے، اسکول کی فیسیں کہاں سے ادا کرینگے اوردیگر اخراجات کس طرح اٹھائینگے ۔
ان کے لیے کسی سطح پر کوئی ریلیف نہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ ماہ صیام کے دوران ویسے ہی گرانفروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہوجاتی ہے۔ اب ان حالات میں جب کہ ماہ صیام میں ایک ماہ باقی ہے مہنگائی کس حد تک بڑھے گی اس کا تصور تک نہیں کیاجاسکتا کہ لوگ کس طرح سے ماہ صیام کے دوران اپنے گھر کاچولہا جلائینگے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں وزیراعظم شہبازشریف نے وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے معاملات آخری مراحل میں ہیں اور معاہدے کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی مزید بڑھے گی اور کہا کہ امید ہے اگلے چند روز میں آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ معاہدے کے نتیجے میں مہنگائی مزید بڑھے گی۔
پاکستان میں غریب آدمی نے ہمیشہ قربانی دی، زلزلہ ہو یا سیلاب قدرتی آفات میں ہمیشہ غریب آدمی پر بوجھ پڑا، پوری کوشش ہے کہ پاکستان کو مشکلات سے نکالیں، پاکستان کو غربت سے نجات دلانی ہے تو اجتماعی کاوشیں کرنا ہوں گی۔ان کا کہنا تھاکہ آئی ایم ایف معاہدے کے نتیجے میں عام آدمی پر بوجھ پڑا تو وہ سوال اٹھائیگاکہ حکومت نے کیا کیا؟ اشرافیہ کا بچہ بیمارا ہو تو وہ فرانس میں علاج کروا سکتے ہیں، غریب کے گھر بیماری آئے پورے خاندان کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں کہ علاج کیسے ہوگا، بینظیرانکم سپورٹ پروگرام میں 25 فیصد اضافہ کر رہے ہیں۔وزیراعظم نے اعلان کیا کہ تمام وفاقی وزراء، مشیر اور وزیر مملکت رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہیں لیں گے، معاونین خصوصی نے بھی رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کے یہ اعلانات اپنی جگہ مگر وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اہم انکشافات کئے ہیں کہ ہمارے یہاں منتخب نمائندگان سمیت دیگر اشرافیہ پلاٹ لیتے ہیں، اور بے شمارمراعات لیتے ہیں، کاروبار پر ٹیکس نہیں دیتے۔ تمام تر خرابیاں نظام سے جڑے سیاستدانوں، بیورو کریسی اور مخصوص اشرافیہ کے اندرہیں، جب تک یہ ختم نہیں ہوگا ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ خواجہ آصف کی باتیں گزشتہ روز کی ہیں تو کیسے یہ مان لیاجائے کہ سیاستدان جو انتخاب لڑنے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرکے ایوان میں آتے ہیں وہ رضاکارانہ طور پر کوئی مراعات نہیں لینگے اور عوام کے وسیع تر مفاد میں قربانی دینگے، یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے قربانی عوام نے ہی دینی ہے۔