|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2023

بلوچستان قطع نظر اس بات پر کہ یہاں معاشرتی، معاشی، مذہبی اور ثقافتی زندگی، حالات و واقعات نے اجیرن بنا دی ہے مگر ایسے کون سے عوامل ہیں کہ ہم اپنی زندگیوں کو بہتر سے بہتر بنا کر بلوچستان جیسے اپنے صوبے کو اوپر لاسکتے۔ وہ تمام تر حقائق کہ جن کا تعلق براہ راست صوبے کے نوجوان طبقے سے ہے جن میں تعلیم، صحت، کھیل، روزگار اور میرٹ وغیرہ شامل ہے، پر اپنی توجہ اگر مبذول کرے تو یہ سالوں کی نہیں بلکہ مہینوں کی بات ہوگی کہ جب بلوچستان چڑھتے ہوئے سورج کی طرح ترقی کی راہ پر خود بھی گامزن ہوگا اور ملک کو بھی گامزن کرائے گا۔
اگر تعلیم کی بات کی جائے تو اس وقت UNESCO کے مطابق امریکہ، برطانیہ اور جرمنی بالترتیب پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر سب سے بہترین تعلیمی نظام رکھتے ہیں۔ ہم معاشی طور پر اتنی استعداد تو نہیں رکھتے کہ انہی ملکوں کی طرح تعلیم پر اخراجات کرسکیں تو بہتر ہے کہ ہم تعلیمی نظام میں آزربائیجان ہی کی مثال لیںجہاں شرح خواندگی 99.87 فیصد ہے۔ آزربائیجان سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد 1991 میں آزاد ہوا، اب یہاں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کہ کہاں 1991 میں آزاد ہوا ملک کھڑا ہے اور کہاں پاکستان کھڑا ہے جس نے 1947 میں آزادی حاصل کی۔ اس ملک کے ساتھ 6 مسلمان ممالک اور مجموعی طور پر 17 ممالک نے سویت سویت یونین کے ٹوٹنے پر آزادی حاصل کی ۔ آذربائیجان میں اس وقت صرف 9 یونیورسٹیاں ہیں جن میں سر فہرست
The Western Caspian University, The Baku State university اور The Baku Engineering University ہے۔ آذربائیجان کے تمام تر سکولوں اور کالجز اور یونیورسٹیوں میں تعلیم انکے اپنی ہی زبان میں پڑھائی جاتی ہے۔ یہ ضروری ہے تمام بچے سکول میں داخل ہوکر پڑھائی کریں جنکے تمام تر اخراجات حکومت برداشت کرتی ہے۔ آذربائیجان کاکل سالانہ بجٹ 18 بلین ڈالر ہے جن میں سے 13 فیصد یعنی 2.25 ارب ڈالر تعلیم پر خرچ کئے جاتے جوکہ GDP کا 4.5 فیصد ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی بجٹ میں تعلیمی اخراجات کا خود تعین کریں جسکے تحت بلوچستان صوبے کا کل سالانہ بجٹ 612 ارب روپے ہے یعنی 2.35 بلین ڈالر ہے جن میں سے 83 ارب روپے یعنی ٹوٹل بجٹ کا صرف 13.39 فیصد تعلیم پر خرچ کیا جارہاہے جوکہ 318 ملین ڈالرز کے برابرہے۔ اب حقیقت یہ ہے کہ جب تک ملکی معیشت ترقی نہیں کرتی تب تک تعلیمی مسائل ختم نہیں کئے جاسکتے۔ اس وقت ملک خداداد پاکستان کا کل بجٹ 36.4 بلین ڈالر ہے جوکہ آذربائیجان حکومت کے بجٹ سے 50 فیصد زیادہ ہے مگر بد قسمتی ہماری بجٹ کا تقریبا 50 فیصد سے زیادہ قرض اتارنے میں لگ جاتا ہے۔ اور دوسری بد قسمتی یہی ہے کہ پاکستان میں مجموعی طور پرGDP کا صرف 2.3 فیصد تعلیم پر خرچ کیا جارہاہے جو کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔ رہی سہی کسر تعلیم کا مقامی زبان میں نا ہونا ہی پورا کر دیتا ہے
تاہم ان تمام حقائق کو دیکھتے ہوئے بلوچستان میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ موجودہ دور میں تعلیم کا حصول ناممکن ہے ہمیں اجتماعی طور پر اپنے بچوں کو بطور والد، بھائی، بہن، ماں یا کوئی بھی رشتہ ہو ، اچھی تربیت کے ساتھ ساتھ اچھی تعلیم کی اہمیت پر زور دینا چاہیے۔ ہمارے گھروں میں پڑھائی سکھائی کا ماحول ہونا چاہیے بچوں کو موبائل ،ٹی وی دینے کے بجائے کتاب کی شکل میں اچھے دوست دینے چاہییں۔ ایک والد یا پھر والدہ، بہن یا پھر بھائی سے اچھا استاد بہترین تربیت کے لیے کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
بلوچستان میں صحت کے حوالے سے اگر بات کریں تو بہترین اقدامات اٹھائے تو جاتے ہیں مگر ان اقدامات کو جاری نہیں رکھا جاتا ۔ یہاں صحت کا شعبہ باوجود خاطرخواہ بجٹ کے مریضوں کے لئے باعث رحمت ہونے کے بجائے زحمت بن جاتا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں صحت کے لئے حکومت نے 44.69 ارب روپے جیسی خطیر رقم رکھی ہے جو کہ کل بجٹ کا 7.30 فیصد ہے۔صوبے میں ایک اندازے کے مطابق 2015 تک 49 ہسپتال، 540 ڈسپینسریز، اور 102 RHC کے توسط سے 5730 بیڈز کی سروسز دی جارہی ہے۔ مگر بد قسمتی سے ڈی جی ہیلتھ آفس کی ویب سائٹ اس وقت غیر فعال ہے جسکی وجہ سے تازہ ترین معلومات تک رسائی حاصل نہیں ہو پا رہی۔
بلوچستان میں ملازمتوں کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ بات خوش آئند ہے کہ بلوچستان میں میرٹ کے حوالے سے موجودہ حکومت کی جانب سے احسن قدم اٹھایا گیا جس کے تحت درجہ چہارم سے اوپر کے تمام ملازمتوں کو بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے توسط سے پر کیا جائیگا۔ اس اقدام سے بلوچستان کے نوجوانوں میں موجود احساس محرومی میں خاطرخواہ کمی ہوگی۔ بلوچستان میں نوکریوں کی خرید و فروخت کے چرچے زبان زدعام تھے۔ کبھی اسمبلی فلور پر اس حوالے سے الزامات ،بہتان تراشیاں ہوتیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں۔ ایسے میں تعلیم یافتہ مگر غریب نوجوان مزید بے بس و لاچار رہ کر مایوسیوں کے دلدل میں پھنس جاتے تھے۔ مگر فی الحال اس پر پیش رفت بھی صرف پریس کانفرنس کی حد تک محدود ہے اگر تو اس کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ بلوچستان کا نوجوان طبقہ اپنی محنت سے دنیا کے ہر فیلڈ میں اپنا لوہا منوا سکتاہے۔
سپورٹس کے میدان میں حال ہی میں بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں پی ایس ایل کا ایک نمائشی میچ 5 فروری کو کوئٹہ گلیڈئیٹر اور پشاور زلمی کے مابین رکھا گیا۔ میچ اکبر بگٹی سٹیڈیم میں کھیلا گیا جہا تماشائیوں کی بے پناہ رش نے ثابت کردیا کہ بلوچستان کے باسی کھیلوں سے محبت انتہا کی رکھتے ہیں۔ اس میچ نے قوم پرستی، تعصب، قبائلی تعصب کو ردکردیا۔ پشتون بلوچ دونوں کو ایک ساتھ بٹھایا جنہیں قوم پرست جماعتوں نے ایک دوسرے کا دشمن بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔
قارئین کرام بلوچستان جس طرح رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے اسی طرح قدرتی معدنیات میں بھی اپناکوئی ثانی نہیں رکھتا۔ایک اندازے کے مطابق 14 ہراز ٹن سونا اور لاکھوں ٹن تانبے کے زخائرریکوڈک کی شکل میںیہاں موجود ہیں۔قلعہ سیف اللہ کے تحصیل مسلم باغ میں کم و بیش 2 لاکھ ٹن کرومائیٹ پایا جاتا ہے جس سے ملکی معیشت کو بے تحاشہ فائدہ مل رہا ہے۔ مجموعی طور پاکستان میں کم و بیش 50 قسم کے قدرتی معدنیات پائے جاتے ہیں جن میں سے 40 منرلز بلوچستان میں ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ بلوچستان کی قسمت بدل نہ سکی؟ اسی طرح پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 25.1 ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ذخائر موجود ہیں جن میں سے 19 ٹریلین کیوبک فٹ بلوچستان میں پایا جاتا ہے جسکے استعمال سے ملکی معیشت کو سالانہ اربوں روپے کا سہارا ملتا ہے۔
ویسے کوئلے کے ذخائر کاتعین کرنا مشکل ہے مگر ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں 220 ملین ٹن کوئلہ موجود ہے جو بلوچستان کی ترقی کا ماخذ بن سکتا ہے۔
قارئین کرام ، بلوچستان کے پاس ترقی کرنے کے لئے ایسی کون سی جادو کی چھڑی ہونی چاہیے کہ جس سے یہاں کی پسماندگی اور محرومیوں کا خاتمہ کیا جاسکے بلکہ اسے ترقی کی راہ پربھی گامزن کرسکے۔