|

وقتِ اشاعت :   January 28 – 2016

اکیسویں صدی نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں بے تحاشا تبدیلی رونماء کئے ان میں سب سے اہم کارنامہ تیز ترین انٹرنیٹ سروس کی فراہمی تھی جس نے پوری دنیا کو ایک گول دائرے میں بند کر دیا۔ پوری دنیا سے معلومات کا تبادلہ انٹرنیٹ کے ذریعے سے ہونے لگے۔ اسکی دیکھا دیکھی میں ویب سائیٹ کی لانچنگ کا کام بھی شروع ہو گیا۔ جسے ورلڈ وائیڈ ویب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پاکستان میں سب سے پہلے انٹرنیٹ کا استعمال 1992کو لاہور سے عمران انٹرنیٹ سروس کے ذریعے محدود پیمانے پر شروع ہو گیاجو کہ ڈائیل اپ ای میل سسٹم تھا جسکے ذریعے جدیدپیغام رسانی کا کام کیا جانے لگا۔ پھر یہ مختلف مراحل سے ہوتا ہوا کئی کمپنیوں کی دسترس میں آتا گیا اور لوگوں کی رسائی اور بھی آسان کر دی گئی۔ جدید ٹیکنالوجی نے مارکیٹ میں نئے نئے کمپیوٹر متعارف کروا دئیے ڈیسک ٹاپ سے لیپ ٹاپ آگیا اور اب آئی پیڈ، آفون بھی ہر ایک کی پہنچ میں آگئی۔ 2007ء کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹد PTCLنے Broad Bandسروس کا آغاز کیا جو کہ ڈائیلپ کنکشن سے نکل کر تیز ترین انٹرنیٹ سروس کر صورت میں سامنے آگئی دراصل یہ وہ دریافت تھی جس نے ہر چیز کو انسانوں کی دست رس لانا تھا۔ انٹرنیٹ کی تیز سروس نے اخبارات اور جرائد کو انسانی پہنچ سے قریب کر دیا جن خبروں کے لئے قاری کو ایک دن کا انتظار کرنا پڑتا تھا وہ انٹرنیٹ کی بدولت فوری خبر کی صورت میں لوگوں کے پاس آنا شروع ہو گیا۔خبری ذرائع انٹرنیٹ بن گیا۔ جسے صحافتی اصطلاح میں آن لائن جرنلزم کا نام دیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں آن لائن جرنلزم کا فروغ کب کہاں اور اسکی ضرورت کیوں پیش آئی۔bex 1 بلوچستان کی سب سے پہلی آن لائن نیوزپیپر ویب سائیٹ بلوچستان ایکسپریس ہے جو کہ 2002کو آن لائن ہوا۔ اس حوالے سے ایڈیٹر آصف بلوچ کہتے ہیں ’’ ویب سائیٹ کا خیال کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان طفیل بلوچ کو آیا۔ جنہوں نے اس ویب سائیٹ کی ڈیزائن اور اسے مرتب کیا۔ اور بعد میں اسے لانچ بھی کیا گیا۔ اسکی ضرورت اسلئے پیش آئی کہ خلیجی ممالک میں رہنے والے افراد بلوچستان کی خبروں سے محروم تھے۔ اور بلوچستان کی خبریں ان تک پہنچانا ضروری تھا جو کہ انکی ڈیمانڈ تھی۔اسی ڈیمانڈ کو بنیاد بنا کراخبارات کے ساتھ ساتھ اسے آن لائن ایڈیشن کی شکل دے دی گئی جہاں زیادہ تر خبریں بلوچستان سے ہوا کرتے تھے۔ گو کہ یہ اس وقت بہت مہنگا سودا تھا لیکن قارئین کی ڈیمانڈ کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جسکے بعد باقاعدگی سے خبروں کی اشاعت آن لائن ویب سائیٹ کے ذریعے ہو نے لگا جو کہ بلوچستان کی سطح پر ایک نیا اور انوکھا تجربہ تھا‘‘ وہ کہتے ہیں کہ شروع میں ویب اخبار کی ویب سائیٹ کو بنانے اور چلانے کے لئے بے حد مسائل در پیش آئے لیکن لوگوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے چلانا پڑا۔ کافی اخراجات آنے اور مالی مسائل سے دوچار اخبار نے 2006کو اسے وقتی طور پر بند کردیا گیا۔اس وقت انگلش اور اردو دونوں خبریں ایک ہی ویب سائیٹ کا حصہ ہوا کرتے تھے لیکن بعد میں ریڈرز کی اصرار پر 2007کو دوبارہ اسے لانچ کیا تو انگلش کے لئے الگ تو اردو کے لئے الگ ویب سائیٹ ڈیزائن کئے گئے اور روزانہ کی بنیاد پر اپ ڈیٹ دیتے رہتے ہیں۔ کیا واقعی ان ویب سائیٹ کو باقاعدگی سے دیکھا جاتا ہے اور آگے چل کر یہ سلسلہ کس طرح کامیاب ہوگی اس پر آصف بلوچ کہتے ہیں’’ اگر روزنامہ آزادی کو اٹھا کر دیکھ لیا جائے تو اس وقت سوشل میڈیا فیس بک یا ٹویٹر پر اسکے ہزاروں ریگولر فالورز ہیں اسکے علاوہ اور ہزاروں ایسے لوگ بھی ہیں جو اسکے ساتھ باقاعدہ فالورز نہیں ہیں لیکن وہ بھی ویب سائیٹ اور خبروں کی تلاش میں ویب سائیٹ کا وزٹ ضرور کرتے ہیں‘‘۔interview journalist جوں جوں وقت گزرتا چلا جا رہا ہے لوگ پرنٹ سے آن لائن جرنلزم کی طرف راغب ہورہے ہیں اور اسی حقیقت کو بھانپتے ہوئے پرنٹ کے ساتھ ساتھ اخبارات نے آن لائن ویب سائیٹ کا سہارا لیا ہے تو کیا آگے چل کر ایک بڑی تبدیلی رونماء واقع ہوگی اور پرنٹ کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگا اور آن لائن جرنلزم ایک حقیقی صورت اختیار کر ے گا۔۔ یہی سوال بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر کالم نگار عابد میر کے سامنے رکھا تو انکا کہنا تھا۔ ’’ میں نہیں سمجھتا کہ بلوچستان میں آن لائن جرنلزم اتنا فروغ پا چکا ہے کہ پرنٹ کی اہمیت ہی ختم ہو جائے۔ اگر اندرون بلوچستان جا کر دیکھیں تو اکثر و بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں تو وہاں جب انٹرنیٹ کا وجود ہی نہیں تو اخبارات یا خبری ذرائع انہیں کہاں سے حاصل ہو سکیں اسلئے وہاں کی ضرورت اب بھی اخبار ہے اور دوسری بات یہ کہ بلوچستان کو چھوڑیے آپ پورے پاکستان دیکھ لیں تو اب بھی آن لائن جرنلزم کے حوالے سے اتنی آگاہی نہیں۔ ہاں البتہ اسکے لئے وقت لگے گا اور آگے چل کر شاید آن لائن جرنلزم کے اندر کنورٹ ہوجائے لیکن اخبارات کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔‘‘ جدید ٹیکنالوجی کی جدت، سہولیات اور دسترس میں آتی ہوئی نئے ذرائع شعبہ صحافت کو ایک الگ شکل دینے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اور شاید اسکا مثبت اثر آنے والے وقتوں میں پورے بلوچستان پر پڑے اور لوگ اس جانب مائل ہو جائیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اخباری مارکیٹ میں زیادہ تر اخبارات سے کونسا طبقہ مستفید ہوتا ہے اور کیا آن لائن جرنلزم سے اس شعبے اور یہاں کی کاروبار کو نقصان پہنچا ہے۔ The Diplomatپاکستان کے نمائندے اکبر نوتیزئی کے سامنے جب یہ سوال رکھا تو انکا کہنا تھا ’’ میں نہیں سمجھتا کہ آن لائن جرنلزم سے کاروباری ذرائع پر اثرپڑے گی بلکہ اس سے اس شعبے کو مزید آگے بڑھنے میں مدد ملے گی۔ جیسے دی ڈپلومیٹ کی مثال لیں کہ اس کی پالیسی ہے کہ آپ جب تک اسے سبسکرائب نہ کریں اس وقت تک آپ اس خبر کو مکمل پڑھ نہیں پاتے اسکے لئے باقاعدہ فیس چارج ہوتی ہے تب جاکر وہ خبر پڑھ سکیں گے۔ اس سے اس ادارے کو منافع ہوتا ہے۔ اب اخبارات کو اپنی پالیسی خود بنانی پڑے گی کہ وہ آن لائن جرنلزم کو کس قدر فروغ دیں گے‘‘۔اکبر کا کہنا ہے کہ آگے چل کر ان اخبارات کو مجبوراً آن لائن جرنلزم کی طرف آنا پڑے گا جو اس وقت اس جانب توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آج کے طالبعلم کو دیکھیں تو وہ اخبار نہیں خریدتا بلکہ انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہو جانے کی وجہ سے خبریں آن لائن ہی پڑھتا ہے۔ اخبارات و رسائل کی رجسٹریشن ادارہ DGPR کرتا ہے ادارے میں اس وقت رجسٹرڈ اخبارات کی تعداد 170کے قریب ہے لیکن زیادہ تر اخبارات نے ویب سائیٹ کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا یہی وجہ ہے ان اخبارات کو پزیرائی بھی بہت کم ملتی ہے اور انکی کمائی کا واحد ذریعہ اخبارات کی حد تک ہے آنے والے وقتوں میں اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو یقیناًان اخبارات کی مارکیٹ ویلیو کم ہو جائے گی۔ تو کیا آن لائن جرنلزم کے حوالے سے کوئی پالیسی بنی ہے یا انکی رجسٹریشن کا کوئی طریقہ کار موجود ہے جو آگے چل کر انہیں اشتہارات کے حصول کے لئے آسانی پیدا کردے۔ دی بلوچستان پوائنٹ ایک آن لائن انگلش اخبار ہے جسے 2010میں لانچ کیا گیا کے ایڈیٹر عدنان عامر کا اس حوالے سے کہنا ہے ’’ حکومتی سطح پر اب تک آن لائن اخبارات یا ویب سائیٹ کے لئے کوئی قانون سازی یا پالسی مرتب نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی اسکی باقاعدہ رجسٹریشن کی جاتی ہے بلکہ اسکے لئے سب سے پہلا کام اسکا ڈومین خریدنا ہوتا ہے اسکے بعد اسے اخبارات کی شکل دینی ہوتی ہے اسی وجہ سے اسے حکومتی سطح پر کوئی پزیرائی ملتی اور نہ ہی اشتہارات ۔ بلکہ اسکے اشتہارات پرائیوٹ اداروں کی طرف سے اس وقت موصول ہونا شروع ہو جاتے ہیں جب اس ویب سائیٹ کے ریڈرز زیادہ سے زیادہ ہوجاتے ہیں۔ البتہ آنے والے وقتوں میں اسکے حوالے سے پالیسی سازی اور رجسٹریشن کے حوالے سے حکومت ضرور اقدامات اٹھائے گی‘‘۔ پاکستان کی سطح پر ویب سائیٹس کی چیک اینڈ بیلنس کے لئے ایک ادارہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی PTA جسے 1994کو ایک ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا۔جس کے سب آفسز چاروں صوبوں تک پھیلائے گئے۔ ادارے کی جانب سے ایسے بہت سے اداروں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی گئی جو کہ پی ٹی اے کی قوانین کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔بلوچستان کی ایک اور آن لائن انگلش اخبار The Baloch Haal انہی میں سے ایک تھی جو کہ پی ٹی اے کی قوانین کی زد میں آگئی۔ جسے 2009کو اسکے بانی ملک سراج اکبر نے شروع کیا اور 2010کو اس پر پابندی عائد کی گئی۔ یہ بلوچستان کی سطح پر قائم کی جانے والی پہلی انگلش آن لائن اخبار تھی ۔ جسے بہت جلد بندش کا شکار ہونا پڑا۔ اسکے علاوہ آساپ اخبار کی بندش اسکے آن لائن ایڈیشن پر اثرانداز ہوئی جسکی وجہ سے بلوچستان کے طول و عرض اور خلیجی ممالک میں لوگوں کا اہم خبری ذرائع بند ہو گیا۔
Pakistanis read morning newspapers carrying headline stories on the arrest of a suspect in New York City's Times Square bomb attempt, at a newspaper stall in Islamabad, Pakistan on Wednesday, May 5, 2010. Pakistan's army does not believe the Pakistani Taliban were behind the Times Square bomb attempt as the insurgent group has claimed, a spokesman said Wednesday. (AP Photo/Anjum Naveed)

بلوچستان کی سطح پر دیگر اور اخبارات بھی ہیں جو کہ پرنٹ کے ساتھ ساتھ آن لائن ایڈیشن بھی شائع کرتے ہیں۔ لیکن انکی تعداد کم ہے جس میں روزنامہ انتخاب، قدرت، جنگ، ایکسپریس اور دیگر اخبارات شامل ہیں جو کہ روزانہ کی بنیاد پر اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہیں اور اپنے ریڈرز کی تعداد کو بڑھاتی ہیں۔بلوچستان کے دور دراز علاقوں تک کوئٹہ کی سطح پر شائع ہونے والی اخبارات دوسرے روز پہنچ جاتی ہیں یعنی دو دن پہلے کی خبر بعد میں پہنچ جانا قاری کی توجہ حاصل نہیں کر پاتا۔ اور آن لائن ایڈیشن انہیں بروقت خبروں کی رسائی میں آسانی پیدا کرتی ہے۔ لیکن جہاں انٹرنیٹ دستیاب نہیں تو وہاں مجبورا اخبارات کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی تیز ترین سروس نے آن لائن جرنلزم کو کم قیمت اور لوگوں تک رسائی میں آسانی پیدا کی ہے۔ یہی شعبہ آنے والے وقتوں میں لوگوں کی رسائی میں بڑے پیمانے پر آجائے گی۔ پہلے پہل کسی اخبار کو شروع کرنے کے لئے ایک وسیع پیمانے پر سرمایہ لگانے کی ضرورت تھی اور اب جبکہ یہ چھوٹے پیمانے پر شروع کرکے اس کاروبار کو وسعت بھی دی جاتی ہے اور کاغذ کے بے جا استعمال سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ پھر سوشل میڈیا نے اس کام کو اور آسان بنا دیا کہ وہی تحریر کنندہ جو کہ اخبارات کے گیٹ کا باہر کھڑے ہو کر ایڈیٹر کے ناز و نخرے برداشت کرتے تھے وہ اب اپنے خیالات کا اظہار سوشل میڈیا اور بلاگ کے ذریعے کرنے لگے ہیں۔ جبکہ ویب سائیٹ کی ارزانی نے بھی اسے عام صارف کی قوت خرید تک آسان کردی ہے۔ اور اب بلوچستان کی سطح پر آہستہ آہستہ آن لائن جرنلزم فروغ پا رہا ہے۔ اسی کی دیکھا دیکھی میں اخبارات کی آن لائن ایڈیشن اور انہیں سوشل میڈیا کے ساتھ منسلک کرنے کا سلسلہ جو کہ روزنامہ بلوچستان ایکسپریس اور آزادی سے شروع ہوا تھا وہ اب تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اب اگر پاکستان کے سب سے بڑے اخبار ڈان، جنگ، ایکسپریس اور دیگر اخبارات اپنا آن لائن ایڈیشن بھی نکال رہے رہیں تو یقینی طور پر وہ بھانپ گئے ہیں کہ وقتاً فوقتاً پرنٹ جرنلزم پیچھے جبکہ آن لائن جرنلزم آگے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ حالیہ شائع کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اخبارات جس میں دنیا کی سب سے بڑی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی مارچ 2013تک پرچوں کی سرکولیشن 14,81,000تھی جو کہ ستمبر 2015ء تک 10,64,000ہوگئی ڈھائی سال کے اندر 417000کی کمی واقع ہو گئی یعنی پرنٹ جرنلزم کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی بجھ گئی۔ لیکن بلوچستان میں معاملہ قدرے مختلف ہے۔ کیونکہ ابھی تک آن لائن جرنلزم کے حوالے سے آگاہی ابھی تک نہیں آچکا ہے اگر آچکا ہے تو وہ صرف سوشل میڈیا پر وقت گزارنے کے۔ یہی وجہ ہے کہ اخبارات پرنٹ کی صورت میں اپنی اہمیت برقرار رکھا ہوا ہے۔ یہاں فی الحال پرانا طریقہ کار استعمال میں لایا جا رہا ہے لیکن مسقبل کی پیش بندی بھی کرنی ضروری ہے اور اسکے لئے ضروری بھی ہے کہ آن لائن جرنلزم کا فروغ ہو اور بلوچستان سے متعلق مسائل و تجاویز اور حل ہر عام و خاص کی دسترس میں ہوں۔