یہ الیکشن سے ڈہائی سال پہلے فروری 2013ء کا مہینہ تھا پاکستان پیپلزپارٹی کے حکومت پر طاقتور حلقوں کی جانب سے انتہائی دباؤ تھا کہ وہ بلوچستان کے سب سے زیادہ دفاعی اور مفید ساحل و بندر گاہ کو چینی کمپنی چائنا اورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی COPHCکے حوالے کرے ۔ اس دن سے اب تک اس پر اسرار سودے کا معاہدہ ‘ دورانیہ اور کام کی نوعیت سیغہ راز ہیں ۔ گوادر پورٹ کو جلد بازی اور خفیہ طورسے چین کے حوالے کرنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ وفاق کے اصولوں کی دھجیاں اڑانے کے مصداق ہے ۔ اس کے ہزاروں اسباب پیش کیے جا سکتے ہیں اگر سطحی طورپر لیا جائے تو گوادر پورٹ ایک عام بندرگاہ ہے تاہم دنیا کے دوسرے بند رگاہوں کی طرح گوادر بھی اپنے بلوچ تاریخ اور شناخت کے ساتھ مربوط ہے ۔ گوادر کے ساتھ بلوچوں کا قومی اور جذباتی لگاؤ تاریخ کے اس دور سے شروع ہوتا ہے جب حمل جےئند نے پرتگیزیوں کے سامنے مزاحمت کی اور غاصبوں سے ایک دلیرانہ جنگ لڑی ۔
قومیں اپنے زمین کے انچ انچ کی حفاظت کے لئے کیا کیا کرسکتے ہیں اس کا اندازہ صرف جاپان اور چین کے درمیان جزائیر ڈیایوDiaoyu Islandsکے تنازعہ سے لگایا جا سکتا ہے جو بمشکل سات کلو میٹر پر مشتمل مشرقی چینی سمندر میں تین پہاڑیوں کے ٹکڑے ہیں یہ صرف زمین کے ننھے ٹکڑوں کا سوال نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے برتری اور اصولوں کا سوال ہے گوادر بھی بلوچوں کے لئے زندگی اور موت کا سوال ہے ۔ اسلام آباد کی جانب سے گوادر کے قسمت کا کوئی بھی یک طرفہ فیصلہ تباہ کن ہوگا اوربلوچ اس کی ہر پلیٹ فارم پر مخالفت کریں گے۔ بلوچوں کا اسلام آباد کے ساتھ بد دلی ایسے پروان نہیں چڑھی ‘ یہ تسلسل کے ساتھ غیر حساس فیصلوں کا نتیجہ ہے جس نے بلوچ سوسائٹی ‘ معیشت اور سماجی اقدار کو بری طرح متاثر کیا ۔ پاکستانی سیاسی اورملٹری اشرافیہ حماقت درحماقت پر تلی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی اسے ایک حساس ثقافتی اور با شعور سیاسی قوم نہیں سمجھا بلکہ اس کے ساتھ انتظامی صوبے کے طورپر سلوک اور حکومت کرتے رہے ۔ گوادر کی کہانی بھی ان گنت فریبوں میں ایک اضافہ ہے جو کئی بلوچوں کو مجبور کرتاہے کہ ریاست کے خلاف انتہا ہی سخت اقدام اٹھائیں ۔
سابق صدر پرویزمشرف نے سال 2007ء میں گوادر پورٹ کا انتظام اور آپریشنل کنٹرول تین ہفتے پہلے بنی کمپنی پی ‘ ایس ‘ اے گوادر پرائیوٹ لمیٹیڈ کو چالیس سال کے لئے دے دئیے جو 18جنوری2007ء میں رجسٹریشن نمبر200701058Kکے تحت سنگا پور میں رجسٹر ہوئی تھی اور پھر فروری2013ء میں ایک ایسا ہی معاہدہ پی پی پی حکومت نے COPHCکے ساتھ کی جو پاکستان پروکیورمنٹ رولز اور آئی ایم ایف کے ضوابط کے خلاف تھا ۔ اس مضمون میں مختصر طورپر اس معاملے کا جائزہ لوں گا اور بتانے کی کوشش کروں گا کہ کس طرح پاکستان میں قومی مفاد کے نام پر اس طرح کے معاہدوں پر پردہ ڈالا جاتا ہے ۔
پورٹ اینڈ شپنگ کے افسران نے میڈیا اورعوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کرتاثر دینے کی کوشش کی کہ گوادر کو پورٹ آف سنگا پور اتھارٹی PSA کے حوالے کیا جائے گا مگر معاہدے میں اس کمپنی کا کہیں ذکر نہیں تھا یہ کمپنی دنیا کے میگا پورٹ اتھارٹی میں شمارہوتا ہے جبکہ عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے اسی کمپنی کے نام کو استعمال کرکے ایک کمپنی بنایا گیا جسے پی ایس اے گوادر پرائیویٹ کا نام دیا گیا جسے بظاہر ایک مقامی شخص عبدالکریم ڈھڈی اور نیشنل لاجسٹک سیل NLC چلا رہے ہیں مگر حقیقت میں بندر گاہ کو کراچی کے ایک تاجر کے حوالے کیا گیا ہے جس کا نیشنل لاجسٹک سیل ‘ ملٹری اور بحری افسران سے مجرمانہ تعلقات ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پورٹ کے نیلامی کے وقت اس کمپنی کا وجود نہیں تھا اور نیلامی خود اسپانسرز ہی کررہے تھے اس معاہدے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا دونوں فریقین کو اچھی طرح پتہ تھاکہ یہ معاہدہ بد نیتی پر مبنی ہے اورسپریم کورٹ اسے با آسانی منسوخ کرسکتا ہے اور ان کے بھی نام افشاء ہونگے جو اس گھناؤنے کام میں ملوث ہیں لہذا یہ مناسب سمجھاگیا کہ اس مسئلے کو عدالت کے باہر حل کیا جائے ۔
بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت میں اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ پی ایس اے گوادر نامی کمپنی کو گوادر پورٹ کے حوالے کرنے کے وقت اعتماد میں لیا گیا تھا اور نہ ہی اس کی واپسی کے مسئلے پر مشورہ کیا گیا ہے حتیٰ کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ کو گوادر پورٹ اتھارٹی کا چئیرمین بھی نامزد نہیں کیا گیا کیونکہ وہ اس معاملے پر وفاق کو بار بار یاد دہانی کروا رہے تھے اس کے بعد پیسوں کے لین دین کا معاملہ آگیا گوادر پورٹ اتھارٹی قانونی طورپر 270ملین ڈالر کا معاہدہ نہیں کر سکتا لہذا گوادر پورٹ ایمپلی منٹیشن پورٹ اتھارٹیGPIAبنا کر اس رکاوٹ کو بھی دور کیا گیا ۔مختصر طورپر چائنا کو جو معاہدہ دیا گیا ہے یہ بد نیتی پر مبنی معاہدہ ہے جس کا ہم ذکر کررہے ہیں ۔ پی ایس اے گوادر نامی اس کمپنی نے اپنے حقوق اور شئیرز چائنیز کمپنی کو منتقل کیے ۔ اس کے باوجود کہ عدالت کے واضح احکامات ہیں کہ کیس کے فیصلے تک ایسی کوئی اقدام نہیں کیا جائے گا ۔اس کے علاوہ سب سے تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس عمل کے دوران پورٹ آف سنگا پور نے COPHCکو پہلے ہی سے ایک غلط معاہدہ تھما دیا تھا گوادر جیسے دفاعی ہیرے کو بغیر کسی شفاف عمل کے چین کے حوالے کرنا نہ صرف ملکی قوانین کے خلاف ہے بلکہ آئی ایم ایف کے مالی شفافیت کے اصولوں کی مکمل خلاف ورزی ہے ۔ اس معاہدے کا ایک بھی حصہ میڈیا میں نہیں لایا گیا اور نہ ہی گوادر پورٹ اتھارٹی کے ویب سائٹ پر شائع کیا گیا بلوچستان کے قوم پرستوں سمیت اس وقت کے گورنر نواب ذوالفقار علی مگسی نے فروری 2013ء کے معاہدے پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور اسے غیر قانونی اور آئین کے آرٹیکل 1 ۔154کے خلاف گردانا ۔ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ایسے معاملات جو وفاق یا ملک کے لیے اہم ہوں جیسے بندر گاہ ‘ شپنگ یا پانی کا مسئلہ ہو تو اس کو باہمی مفادات کا کونسل بنا کر حل کرنا چائیے نہ کہ ان کا فیصلہ فرد واحد کرے ۔
اسلام آباد اوربلوچوں کے درمیان گوادر ‘ بلوچ ساحل و وسائل بنیادی تنازع کا سبب ہیں میڈیا میں سیاسی پارٹیاں اور علیحدگی پسند روزانہ کی بنیاد پر حکومت کے یک طرفہ فیصلوں اور بلوچستان کی دولت کے فروخت پر احتجاج کررہے ہیں یہ نہایت تعجب کی بات ہوگی کہ ایک خودمختار ملک اور فیڈریشن اپنے اکائی بلوچستان جہاں گوادر واقع ہے اس کو قائل کیے بغیر اس کی زمین ‘ بندر گاہ ‘ ائیر پورٹ دوسرے ملکوں کے حوالے کرے حتیٰ کہ انفرادی لوگوں کو پچاس سے نوے سالوں کے لئے اس لیے دیا جائے کہ وہ اپنی تفریح کا مسکن بنا لیں اور اسے شکار گاہ کے طورپر استعمال کریں ۔ آپ میں سے زیادہ تر لوگ شمسی ائیر پورٹ سے واقف ہوں گے جو بلوچستان کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے اور وسیع صحراء پر مشتمل ہے اسے عرب کے شہزادوں کو سینکڑوں سالوں کے لئے لیز پر دیا گیا ہے جہاں وہ اپنے شکار کی پیاس بجھاتے ہیں جسے بعدمیں امریکی افواج نے پاکستان کے اندر ڈرون حملوں کے لئے استعمال کیا ۔
بلوچستان حکومت کے ایک سینئر افسر کے مطابق وفاقی حکومت نے ہمارے بار بار کے اصرار کے باوجود ہمیں اس معاہدے کی تفصیلات بتانے سے انکار کردیا جس میں لیز کا دورانیہ ‘ بندر گاہ کااستعمال ‘ انتظامی طریقہ کار ‘ اخراجات اور آمدن اور سب سے زیادہ اہم اس کی سیکورٹی کے انتظامات شامل ہیں اس معاہدے کے حصول کیلئے بطور سابقہ قانون ساز ادارے کے رکن میں نے احسن اقبال اور پلاننگ کمیشن سے رابطہ کیا تاکہ اس کی کاپی حاصل کرکے عوام الناس کو آگاہ کرسکوں مگر اس میں مجھے کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ۔ تاہم حال ہی میں احسن اقبال نے چین پاکستان اقتصادی راہداری معاہدے کے حوالے سے لاہور میں ایک سیمینار میں با قاعدہ یہ اعلان کیا کہ چین کی اجازت کے بغیر اس معاہدے کے بارے میں نہ ہی میڈیا کو بتایا جائے گا اور نہ بلوچستان حکومت کو ‘ جناب وزیر موصوف کا پنجاب کے دارالحکومت میں یہ بیان دینا کئی معنی رکھتا ہے ۔اس معاہدے تک رسائی فی الحال ممکن نہیں لہذا ہم 2007ء کے پی ایس ‘ اے گوادر اور حکومت اسلام آباد کے درمیان رعایتی معاہدے پرانحصار کرتے ہیں یہ رعایتی معاہدہ پی ‘ ایس ‘ اے اور اس کے پاکستانی مالکان کیلئے کیا گیا تھا جس سے وہ گوادر اور اسکے گردونواح کے کروڑوں کی اراضیات تک رسائی حاصل کر سکیں۔ پی ‘ ایس ‘ اے گوادر اور اس کے پارٹنر عبدالکریم ڈھیڈی اور این ‘ ایل ‘ سی ہزاروں ایکڑ اراضی کو مفت ہڑپ کرکے اسے کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کر سکیں ’ لاہور سے تعلق رکھنے والے بلاگر سعادت اللہ نے کسی طرح 2007ء کے ابتدائی معائدہ تک رسائی حاصل کی ہے جس کے مطابق معاہدہ ابہام اور بد نیتی پر مبنی ہے ۔
1۔معاہدے کے مطابق گوادر پورٹ اتھارٹی کے حقو ق‘ فنکشن اور ذمہ داریاں غیر ملکی نجی ادارے کو بخش دئیے گئے ہیں جہاں بلوچستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے ۔
2۔گوادر پورٹ اتھارٹی کے آرڈیننس کے مطابق جی ‘ پی ‘ اے محدود دائرہ کار میں مقید ہے وہ نہ چارجز لاگو کر سکتا ہے نہ قیمتیں مقررکرسکتا ہے ۔ اس کے لئے اسے پہلے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے منظوری لینی پڑتی ہے جبکہ غیر ملکی نجی ادارے کو مکمل آزادی دی گئی ہے کہ وہ نہ صرف پورٹ کو آپریٹ کر سکتاہے بلکہ چارجز کا تعین بھی کرسکتا ہے ۔
3۔معاہدے کی رو سے فریق بیس سال تک انکم ٹیکس ، سیلز ٹیکس، تمام صوبائی اور لوکل ٹیکس سے مستثنیٰ ہوگا۔ چالیس سال تک تعمیراتی اور بندرگاہ کے چلانے کے اشیاء کے درآمدات پر ڈیوٹیز اور سیلز ٹیکس سے بھی مشتنیٰ ہوگا اس کا دورانیہ تقریباًچالیس سال تک محیط ہوگا اس کے علاوہ اس کمپنی کو معاہدے کے مدت میں مکمل اختیارات ملیں گے کہ وہ رعایتی اراضی پورٹ کے نرخ اور ٹیرف مقرر کرے یونینز پر پابندی لگائے ‘ ان میں کئی رعایتیں موجودہ قوانین کے خلاف ہیں ۔
4۔گوادر فش ہاربر کے ساتھ چھوٹی بندر گاہ کو مکمل طورپر اس پارٹی کے حوالے کیاجائے ۔
5۔گوادر پورٹ کے سارے اختیارات اور اس کی منتقلی ایک رعایتی ادارے کے حوالے کرنا بھی قانون ‘ عوام اور قومی مفادات کے خلاف ہے ۔
6۔جبکہ دوسری جانب ہتھیا لینے والے کمپنی چالیس سالوں تک ایک چھوٹی سی رقم یعنی اپنے آمدن کا نو فیصد گوادر پورٹ اتھارٹی کے ٹرمینل سروسز پر خرچ کرے گا۔ اس کے برعکس گوادر پورٹ اتھارٹی چینلز کے صفائی کا ذمہ دار ہوگا جس پر انتہائی زیادہ اخراجات آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جی ‘ پی ‘ اے کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ بندات کی تعمیر ‘ برتھوں کے ساتھ والے حصوں کی صفائی ‘ روڈوں کی تعمیر اور بندر گاہ سے منسلک دوسرے کاموں کا ذمہ دار ہوگا۔
یہ تو چند ہوش اڑانے والی مثالیں ہیں رعایتی ایگریمنٹ کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ مکمل طورپر پاکستانی حکومت کے خلاف بد نیتی پر مبنی ہے کیونکہ اس میں دوسرے فریق کو حد سے زیادہ ناجائز اختیارات سے نوازا گیا ہے اور گوادر پورٹ اتھارٹی پر کئی سالوں تک مالی طورپر بہت زیادہ بوجھ رکھا گیا ہے ۔
جس کمپنی COPHCکو 2007ء میں یہ اختیارات دئیے گئے ہیں اس نے ابھی تک ایک بھی کمرشل سمندری جہاز کو بندر گاہ لانے میں ناکام رہا ہے لیکن حکومت اس کے خلاف کارروائی کے بجائے کراچی کے کارگو جہازوں کو گوادر منتقل کرنے میں لگاہوا ہے جس سے حکومت کے خزانے کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ۔ ابھی تک لاکھوں میٹرک ٹن کارگو کا رخ گوادر پورٹ موڑ دئیے گئے ہیں جس کیلئے حکومت پاکستان پر ڈہائی ہزار روپے فی ٹن ٹرانسپورٹ کی مد میں اضافی اخراجات آرہے ہیں ۔
بلوچستان کے لوگ گوادر کے بند رگاہ کو تجارتی اور کاروباری مقصد کے لئے استعمال کے حق میں ہیں تاہم اس طرح کے معاہدے کرکے اسے چین کے حوالے کرنے کے ہرگز حق میں نہیں ہیں ۔ اور انہیں کسی قیمت پر یہ منظور نہیں ہے بلوچستان اور بلوچستان کے عوام گوادر اور چائنا پاکستان اقتصادی راہداری کے سب سے بڑے حصہ دار ہیں اور انکا یہ حق ہے کہ وہ ان معاہدوں کا حصہ بنیں اور اس پر کل کر بحث کر سکیں ۔ کیونکہ یہ انکے سماجی ‘ معاشی اور آبادی کے اوپر ایک بڑا اثر رکھنے والا ہے ۔ ذیل میں کچھ تجاویز ہیں جو سنجیدہ توجہ کے طالب ہیں وگرنہ بندوق اور توپیں بلوچستان کے عوام کو سڑکوں پر آنے اور احتجاج کے انتہائی سخت طریقوں سے نہیں روک سکیں گے۔
1۔حکومت اسلام آباد ‘ پی ‘ ایس ‘ سے گوادر کے منتقلی کا رعایتی معاہدہ چین کے COPHCسے فوراً ختم کرے ۔
2۔پاکستان پبلک پروکیومنٹ رولز اور آئی ایم ایف کے اصولوں کے مطابق بین الاقوامی ٹینڈر مشتہر کیا جائے اور دنیا کے بہترین پورٹ آپریٹرز کو نیلامی میں شامل کیا جائے ۔
3۔ایک مکمل دفاعی خطے کو دوسروں کے حوالے کرنا قابل قبول نہیں اور یہ غیر دانشمندانہ اقدام ہے ۔
4۔حکومت بلوچستان بندر گاہ کے حصص کا لازمی جز ہونا چائیے تاکہ اس کا کنٹرول قائم رہے اور اسے ان معاملات کا بہترین تجربہ ہو ۔
5۔دوسرے کمپنیوں کو بھی تعمیرات اور ٹرمینل میں کام کرنے کی اجازت ہونی چائیے اس سے مثبت مقابلے کا رحجان پیدا ہوگا یہ عمل کراچی پورٹ قاسم پر پہلے سے جاری ہے ۔
6۔آئینی ‘ ادارتی اور انتظامی طورپر بلوچوں کے سماجی ‘ معاشی اور آبادی کے تشویش کو مد نظر رکھ کر احسن طریقے سے اس مسئلے کو حل کیاجائے ۔
7۔گوادر کو فوج سے پاک زون بنایا جائے اور کسی بھی فریق کو یہاں اپنی فوج کو تعینات کرنے کی اجازت نہ ہو اس سے گوادر میں کاروبار کے لئے دوسرے ممالک راضی ہوں گے۔ اور ان کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔
بلوچوں کی تشویش کے متعلق اسلام آباد اور چین دنیا کو بیوقوف بنانے کی کوشش کررہاہے میڈیا کو جبری طورپر اس معاملے پر خاموش رکھا جارہا ہے اور بلوچوں کے خدشات اور اس معاملے پر موجودہ بلوچستان کے حالات کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔ یہ انتہائی بد قسمتی کی بات ہے کہ جب بلوچوں کے حقیقی رہنماء ان معاہدوں میں شفافیت کا مطالبہ کرتے ہیں اور اہم حصہ دار ہونے کے ناطے اس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں تو فوراً ان پر پاک چین کے مقدس رشتے کی خاطر ترقی مخالف اور ریاست دشمنی کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے۔ کھربوں ڈالر کے معاہدے کے عمل درآمد سے پہلے بیجنگ پاکستان سے بلوچستان میں انسانی بحران پر سوال اٹھائے صرف بحران کا باقاعدہ حل کا مطالبہ کافی نہیں ہے اور نہ ہی آئینی گارنٹی کافی ہے ۔ اسلام آباد بلوچستان کی زمین اور دولت باہر کے ملک کو پیش کرکے بلوچوں کے زخموں پر نمک پاشی نہ کرے اور وہ بھی صرف اور صرف پنجاب جیسے صوبے کے لئے جو پہلے سے ترقی یافتہ ہے ۔
ثناء اللہ بلوچ سابق رکن سینٹ تھے