|

وقتِ اشاعت :   February 14 – 2016

کوئٹہ: ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاووش اوعلو کے مطابق یہ ممکن ہے کہ سعودی عرب اور ترکی کے فوجی شام میں خود کو دولتِ اسلامیہ کہنے والے شدت پسند تنظیم کے خلاف زمینی کارروائی میں حصہ لیں۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق وزیر خارجہ مولود چاووش اوعلو نے بتایا ہے کہ سعودی عرب دولتِ اسلامیہ کے خلاف فضائی کارروائیوں کے لیے ترکی کے ایک اڈے پر اپنے جنگی جہاز تعینات کر رہا ہے۔دولتِ اسلامیہ کیخلاف جنگ، سعودی پیشکش کا امریکی خیرمقدم سعودی عرب کے پاس نہ تو ہمت ہے اور نہ صلاحیت: ایران ترکی اور سعودی عرب شام میں باغیوں کے حمایتی ہیں جنھیں حال ہی میں شامی فوج نے روس کی فضائی مدد سے کئی علاقوں میں شکست دی ہے۔روس اس سے پہلے خبردار کر چکا ہے کہ شام میں کسی بیرونی ملک کی زمینی مداخلت کے نتیجے میں جنگ عظیم بھی شروع ہو سکتی ہے۔اے ایف پی کے مطابق ترکی وزیر خارجہ مولود چاووش اوعلو نے جرمنی کے شہر میونخ میں سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کے بعد اخبار ینئی سفک اور ہیبر ترک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر دولتِ اسلامیہ کے خلاف حکمت عملی ہے تو پھر سعودی عرب اور ترکی زمینی آپریشن کر سکتے ہیں۔کچھ کا کہنا ہے کہ ترکی دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں حصہ لینے میں ہچکچا رہا ہے لیکن یہ ترکی ہی ہے کہ جو ٹھوس تجاویز دے رہا ہے۔ترکی کے وزیر خارجہ کے مطابق سعودی عرب حالیہ مہینوں میں ترکی کا زیادہ قریبی ساتھی بن رہا ہے اور وہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں کے لیے ترکی کے انجیلک اڈے جنگی جہاز بھی بھیج رہا ہے۔وزیر خارجہ مولود چاووش اوعلو کے مطابق سعودی حکام فوجی اڈے کا معائنہ بھی آئے تھے تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ کتنے جنگی جہاز یہاں تعینات کیے جائیں گے۔’انھوں نے( سعودی عرب) نے کہا ہے کہ اگر ضروری ہوا تو ہم فوجی بھی بھیج سکتے ہیں، سعودی عرب شام میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں بھرپور عظم کا مظاہرہ کر رہا ہے۔‘ایک سوال کہ کیا سعودی عرب اپنے فوجی شام میں داخل کرنے کے لیے ترکی کر سرحد پر بھیج سکتا ہے؟اس پر ترکی وزیر خارجہ مولود چاووش اوعلو نے کہا ’یہ ایک خواہش ہو سکتی ہے لیکن اس کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، سعودی عرب جہاز بھیج رہا ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ اگر زمینی آپریشن کا وقت آتا ہے تو وہ فوجی بھی بھیج سکتے ہیں۔ترکی کے وزیر خارجہ کا بیان ایک ایسے وقت آیا ہے جب ایک دن پہلے ہی شامی صدر بشارالاسد نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہہ سرکاری افواج بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تمام شام کو واپس لینے کی کوشش کریں گی لیکن علاقائی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے اس مسئلے کا حل زیادہ وقت لے گا اور اس میں بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔شامی صدر کے مطابق انھیں یقین ہے کہ باغی فورسز کی حمایت کرنے والے سعودی عرب اور ترکی شام میں فوجی مداخلت کر سکتے ہیں۔خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز پر سعودی عرب کی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل احمد عسیری نیکہا تھا کہ شام میں شدت پسندوں کو شکست دینے کے لیے فضائی کے ساتھ ساتھ زمینی کارروائیاں بھی ضروری ہیں۔ان کا ملک ایسی کسی بھی کارروائی کے لیے اپنی افواج فراہم کرے گا۔اس پر ایران کے پاسداران انقلاب کے کمانڈر ان چیف محمد علی جعفری نے کہا تھا کہ سعودی عرب کے پاس نہ تو ہمت ہے اور نہ صلاحیت کہ وہ شام میں اپنی فوج بھیج سکے کیونکہ اس کی فوج ’روایتی قسم کی ہے۔دریں اثناء امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے توقع ظاہر کی ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامی باغیوں کی مدد کے لیے خصوصی فورسز شام روانہ کر دیں گے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق سعودی اور اماراتی ہم منصبوں سے ملاقات کے بعد امریکی وزیر دفاع نے برسلز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ الرقہ میں جہادیوں کو شکست دینے کی خاطر اعتدال پسند باغیوں کو تعاون فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی وزیر دفاع کارٹر نے کہا کہ شام میں داعش کو شکست دینے کے لیے علاقائی سطح پر سنی ممالک کو فعال ہونا چاہیے۔