2017 کی مردم شماری کے مطابق تقریباً ساڑھے تین کروڑ پاکستانی، کل آبادی کا تقریباً 18 فیصد، پشتون ہیں۔ پشتون ملک کی سول اور ملٹری بیوروکریسی، عدلیہ، فوج، سیاست اور نجی اداروں کے مختلف شعبوں میں کافی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔
یہ پاکستان میں چھوٹے اور بڑے کاروبار اور جائیدادوں میں بھی نمایاں حصے کے مالک ہیں، اور بہت سے پشتون بیرون ملک کام کرتے ہیں اور ہر ماہ ملک کو ترسیلات بھیجتے ہیں۔
یہاں تک کہ ملک کے کئی اعلیٰ عہدیداران کا شجرہ نسب بھی پشتونوں سے ملتا ہے۔ ایسی چند مثالوں میں جنرل ایوب خان جو ایک دہائی (1958-69) سے زیادہ عرصے تک پاکستان کے صدر رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی جنہوں نے ڈی جی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے طور پر خدمات انجام دیں، جنرل عبدالواحد اور جنرل عبدالرحمان، دونوں فور سٹار جرنیل اور ایئر مارشل فاروق فیروز خان وغیرہ شامل ہیں۔
پشتونوں کی بڑی تعداد میں ایک مشترکہ شکایت ہے کہ وہ پڑوسی ملک افغانستان میں لڑی جانے والی جنگوں کا شکار بنتے ہیں۔ کیونکہ اس طرح کی جنگوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور کلاشنکوف کلچر کو درآمد کیا ہے۔ اس نے ماضی قریب میں ہماری مسلح افواج کو ان علاقوں میں فوجی آپریشن کرنے پر مجبور کیا ہے جس سے ان علاقوں کے لاکھوں باشندے متاثر ہوئے ہیں۔ ایک اور بڑی شکایت یہ ہے کہ پشتون جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کا شکار ہیں جس نے ان میں غصہ اور مایوسی پیدا کی ہے۔ سابقہ فاٹا جیسے پشتون اکثریتی قبائلی علاقوں میں ترقی کا فقدان اور پسماندہ رہنے کی شکایات بھی پشتونوں میں عام ہیں۔
اس وجہ سے یہ دلیل کرنا غلط نہیں ہوگا کہ پشتونوں کی شکایات کو دور کرنے اور پاکستان میں داخلی سلامتی کے ایک اہم مسئلے کو ختم کرنے کے لیے ان کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پشتون اور پالیسی سازوں کے درمیان خلیج کو کم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
اگرچہ یہ بات بجاہے کہ پشتون پاکستانی معاشرے کے ایک بڑے طبقے سے زیادہ مذہبی ہیں، لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا ایک مخصوص ضابطہ اخلاق ہے جسے پشتون ولی کہا جاتا ہے۔ قبائلی پشتونوں میں بالخصوص، پشتون ولی کو ایک سخت سماجی اور قانونی ضابطہ سمجھا اور مانا جاتا ہے جس میں شریعت کا عنصر بھی شامل ہے۔ جبکہ بڑے شہروں جیسے کہ کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد میں پشتون ولی کو اْتنی سنجیدگی سے نہیں مانا جاتا۔
پَت(شان / وقار) پشتونولی کا بنیادی ستون ہے۔ پت کے اصول کے تحت ایک پشتون اپنے عزت اور وقار کی حفاظت کرنے کا پابند ہے۔ مختلف چیک پوسٹوں پر ایف-سی یا پولیس اہلکاروں کی طرف سے کی گئی تذلیل ایک پشتون کو اپنی عزت نفس کے تحفظ کے لیے کچھ کرنے کا پابند بناتا ہے، جو اس کی نظروں میں مجروح ہوا ہے۔ ایسے معاملات میں پشتونوں کے لیے ایک آپشن بدل (انتقام) کا ہے جو کہ پشتون ولی کا ایک اور بنیادی اصول ہے۔ بدل کی مختلف شکلیں ہیں ۔
جیسے کہ تھپڑ یا گالی کا بدل کبھی کبھار اگلے کی جان بھی ہوسکتا ہے۔ تاکہ پشتون لوک داستانوں میں قائم رہنے کے لیے ایک مثال قائم کی جا سکے جو تورہ یا زراورتیا (بہادری، ہیرو کردار) کی تعریف کرتی ہے جو کہ پشتون ولی کا ایک اور اہم اصول ہے۔
تورا اکثر بدل سے جڑا ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک پشتون نے اپنے والد کے قتل کے بیس سال بعد اس کا بدلہ لیا لیکن پھر بھی نادم تھا کہ اْ س نے جلد بازی کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے چاہے کتنے سال یا نسلیں گزر جائیں جب تک کہ پشتون اپنا بدلہ نہ لے اْس میں بدلے کا جنون زندہ رہتا ہے۔ اپنا بدلہ لینے والے ایسے لوگوں کو پشتونوں میں ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ اس اصول کے کْچھ ضمنی اثرات بھی ہیں جیسے کہ بہت سے خاندان اور نسلیں وہ دْشمنیاں نبھا رہے ہوتے ہیں جن میں اْنکا کوئی کردار نہیں ہوتا بلکہ وہ دْشمنیاں اْنکے آباؤ اجداد نے شروع کی ہوتی ہیں۔
اور انہوں نے اپنا انتقام اگلی نسلوں میں منتقل کیا ہوتا ہے۔ تاہم، سابقہ فاٹا میں، خاص طور پر وزیرستان میں فوجی آپریشن کو بدل اور تورا کے اس زاویئے سے دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ پشتون بالخصوص پشتون تحفظ موومنٹ کے پیروکاروں کو کن چیزوں پہ غصہ آتا ہے اور وہ کن بنیادوں پر کسی کو اپنا ہیرو بنا لیتے ہیں۔
تربوروالی (خاندانی دشمنی) بھی پشتون ولی کا ایک اہم عنصر اور پہلو ہے۔ تربور کا مطلب پشتو زبان میں فرسٹ کزن(چچازاد / ماموں زاد وغیرہ) ہے۔ پشتون ولی کے اس پہلو کے تحت پشتونوں بالخصوص فرسٹ کزنز سے کہا جاتا ہے کہ وہ بیرونی جھگڑوں میں متحد ہو جائیں۔ جیسا کہ افغانستان میں دیکھا گیا جہاں پشتون طالبان کی ایک بڑی تعداد امریکی افواج کو اپنی سرزمین سے نکالنے کے لیے متحد ہوئی، اگرچہ اس جنگ کے سیاسی زاویے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ دیگر پشتون قبیلے بھی تھے جو اسی اصول کے مطابق طالبان کے خلاف تھے کیونکہ ان کے قبائلیوں کو طالبان نے قتل کیا تھا۔
تربور والی نسلوں کی دشمنیوں کا باعث بھی بنتی ہے، کیونکہ ایک پشتون کے رشتہ داروں کا فرض ہے کہ وہ اس کا قصاص یا بدلہ لیں۔ پشتون ولی کا یہ پہلو یہ سمجھنا آسان بناتا ہے کہ پورے پشتون قبائل اْس جماعت کے خلاف کیوں ہو جاتے ہیں جسے وہ اپنے قبائلیوں کا قاتل سمجھتے ہیں۔
ناناواتے (معافی، بخشش) پشتون ولی کا ایک اوراہم اصول ہے۔ یہ پشتونوں کو پابند بناتا ہے کہ اگر کوئی فرد، جماعت یا قبیلہ حقیقی طور پر معافی مانگے تو وہ اْسے معاف کر دیں۔ اور ایسی معافی کی مثالیں موجود ہیں۔ پشتون ولی کے اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جانی چاہئیں۔ جیسا کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان بحیثیت قوم ماضی میں ہم سے ہونے والی غلطیوں کو بجا طور پر تسلیم کر چکے ہیں کہ ہم نے دوسروں کی جنگوں میں حصہ لے کے اپنی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ مستقبل میں دوسروں کی جنگوں سے انحراف کر کے ریاست ناناواتے کے اصول کے تحت پشتونوں کی ایک بڑی تعداد میں اپنا کھویا ہوا اعتماد دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔
قبائلی پشتون جو نسبتاً دیگر پشتونوں سے زیادہ شکایات رکھتے ہیں اْنکی خاطر اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پاکستان مستقبل میں کسی دوسرے ملک کی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا تاکہ قبائلی پشتون اْن کو معاف کرسکیں جن سے وہ ناراض ہیں اور شدید اختلاف رکھتے ہیں۔
لہٰذا، پشتونوں کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے تا کہ اْن غلطیوں کا ارتکاب نہ کیا جائے جو امریکیوں نے کی تھی، جسکی وجہ سے وہ افغانستان میں اپنی ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے، کیونکہ وہ مقامی لوگوں کی نفسیات کو نہیں جانتے تھے۔ وائٹ ہاؤس میں بیٹھے پالیسی ساز اس بات پر آمادہ تھے کہ افغانیوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے تاکہ ویت نام جیسا انجام نہ ہو۔ پھر بھی، امریکہ، اس کے اتحادی، اور مغرب کی حمایت یافتہ افغان حکومت طالبان کے خلاف کھڑے نہیں ہو سکے، جن میں زیادہ تر پشتون ہیں، کیونکہ اگر وہ ان کی نفسیات کو سمجھنے کی زحمت کرلیتے تو ان سے بہتر طریقے سے نمٹا جا سکتا تھا۔
مختصراً یہ کہ، پشتون پاکستان میں کلیدی عہدوں پر فائز ہیں اور ریاست میں بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ دار ہیں۔ ان کے پاس نہ تو تعداد کی کمی ہے اور نہ پیسے کی۔ لہٰذا، اِن کی نفسیات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کی طویل انتظار کی گئی شکایات کا ازالہ کیا جائے اور انہیں اپنے ضابطہ اخلاق یعنی پشتون ولی کی نظر سے دیکھا جائے۔ پشتون اکثریتی علاقوں میں تعینات فوجی اور ایف سی اہلکاروں اور دفتری اہلکاروں کو بھی پشتون ولی سکھائی جائے۔
صحیح جذبات کو پہنچانے کے لیے زبان کلیدی کردار ادا کرتا ہے، اس لیے جو لوگ پشتو بول سکتے ہیں، انھیں ترجیحی طور پر ایسے علاقوں میں تعینات کیا جانا چاہیے۔ اگرچہ اس طرح پشتونوں کی تمام شکایات کو فوری طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا پر ان کے تحفظات کو دور کرنے کا آغاز ضرور ہو سکتا ہے۔ اس لیے پشتونوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔