مشترکہ تفتیشی ٹیم نے اپنی رپورٹ حکومت کو دی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ بلدیہ ٹاؤن میں فیکٹری میں آگ اچانک اور واقعاتی نہیں تھا بلکہ یہ ایک منظم دہشت گردی کی کارروائی تھی جس میں 259مزدور بھون کر ہلاک کردیئے گئے۔ رپورٹ میں ملزمان کی بھی نشاندہی کی گئی اور کہا گیا ہے کہ بھتہ نہ ملنے کی صورت میں دھماکہ خیز اور آگ لگانے والی کیمیکل استعمال کیا گیا تاکہ فیکٹری کو تباہ کیا جائے۔ رپورٹ میں گزشتہ ایف آئی آر کو خارج کرنے کو کہا گیا جس میں اس کو حادثہ قرار دیا گیا تھا اور کسی ملزم کو نامزد نہیں کیا گیا تھا ۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایف آئی آر میں ’’خوف اور حمایت‘‘ کے عناصر غالب نظر آرہے ہیں جس میں پولیس نے ملزمان کو بچانے کی کوشش کی اور واقعہ کو صرف ایک حادثہ قرار دیا تھا۔ واقعات سے ظاہر ہے کہ متحدہ کے رہنماؤں نے فیکٹری کے مالکان سے 20کروڑ روپے بھتہ طلب کیا تھا اور نہ دینے کی صورت میں عبرتناک سزا کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔ مطالبہ میں منافع میں حصہ داری بھی شامل تھی متحدہ کے لوگوں نے کئی طرح سے دباؤ ڈالے تاکہ یہ ایک حادثاتی واقعہ ثابت دکھے ،دہشت گردی کا واقعہ نہ ہو اور نہ ہی کسی کو معلوم ہو کہ متحدہ کے رہنماؤں نے 20کروڑ روپے بھتہ کا مطالبہ کیا تھا۔ واقعات کے مطابق زبیر عرف چریا نے آتش گیر کیمیکل پھینک کر فیکٹری میں بھولا اور حماد صدیقی کے حکم سے آگ لگائی تھی۔ تین دن تک آگی نہیں بجھائی جاسکی جس میں 259معصوم مزدور زندہ جل کر مرگئے۔ اس سے قبل بھی فیکٹری مالکان کی جانب سے یہ بیان میڈیا کی زینت بنی تھی کہ ان سے 20 کروڑ روپے بھتہ متحدہ کے رہنماؤں خصوصاً حماد صدیقی اور بھولا جو بلدیہ کا سیکٹر انچارج تھا نے طلب کیا تھا اور بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری پر حملہ آور ہوئے اور اس کو مکمل طور پر جلادیا گیا تھا۔ مالکان خوف سے ملک چھوڑ کر چلے گئے اور متحدہ کی جانب سے ان کو مسلسل دھمکیاں ملتی رہیں۔ اس کا مقصد متحدہ کی جانب سے منظم دہشت گردی کے واقعہ پر پردہ ڈالنا اور متحدہ کے رہنماؤں کو بچانا تھا اور یہ ثابت کرانا مقصود تھا کہ یہ محض ایک واقعہ تھا۔ اس میں دہشت گردی کا عنصر شامل نہیں تھا۔ حماد صدیقی متحدہ کے رہنما ہیں اس لئے معاملات کو اپنے خلاف پاکر وہ ملک سے فرار ہوگئے۔ اس لئے رپورٹ میں یہ رائے دی گئی کہ ان کو بین الاقوامی پولیس کے ذریعے گرفتار کرکے ملک واپس لایا جائے اور ان پر اور چھ دوسرے ملزمان پر دہشت گردی اور 259مزدوروں کو ہلاک کرنے کا مقدمہ چلایا جائے۔ واضح رہے کہ متحدہ نے اپنے حکومتی حلیف ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور آخر تک اس بات میں کامیاب رہی کہ پولیس ان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ قائم نہ کرے اور اس کو پولیس اور بددیانت حکمرانوں کے تعاون سے صرف ایک واقعہ ثابت کیا جائے۔ گزشتہ تفتیش میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ متحدہ نے اپنا اثر و رسوخ بھرپور انداز میں استعمال کیا اور مقدمہ کا رخ صرف ایک حادثے کی طرف موڑدیا۔ اب متحدہ اور ان کے نامزد ملزمان کو دہشت گردی کے دفعات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ساتھ ہی سندھ حکومت کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان پولیس افسران کے خلاف بھی کارروائی کرے جنہوں نے جھوٹا مقدمہ درج کیا۔ 259افراد کے قتل کو صرف ایک عام واقعہ قرار دیا۔ ان پولیس والوں نے کس سے رہنمائی حاصل کی تھی ان حکمرانوں، سیاستدانوں اور پولیس اہلکاروں کو بھی سخت سزائیں ملنی چاہئیں تاکہ دہشت گردی، بھتہ خوری، قتل عام کے واقعات کو زیادہ موثر انداز میں روکا جاسکے۔ خصوصاً سیاست میں بھتہ خوری کو کسی طرح بھی برداشت نہیں کرنا چاہئے لہٰذا ان سیاستدانوں اور پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی ضرور ہونی چاہئے کہ وہ تفتیش پر اثر انداز ہوئے تھے اور اس طرح سے جرم کی حمایت کی تھی یا انسانیت کے خلاف جرائم کی حمایت کی تھی۔
بلدیہ میں 259فیکٹری مزدوروں کی ہلاکت
وقتِ اشاعت : February 24 – 2016