پسنی فش ہاربر آج کل دوبارہ بحالی کے دور سے گزررہا ہے۔ یہ فش ہاربر جنرل ضیاء دور حکومت میں بین الاقوامی امداد سے تعمیر ہوا تھا۔ اس کا مقصد مچھلی کی صنعت کو ترقی دینا اور علاقے میں روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کرنا تھا تاکہ علاقہ زیادہ خوشحال ہو اور پسنی کے قرب و جوار میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے۔ سرمایہ کاری بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے کی تھی اور اس کو تعمیر حکومت بلوچستان نے کیا تھا۔ پسنی فش ہاربر اتھارٹی کے چیئرمین ایک سابق سرکاری افسر تھے جو کئی دہائیوں تک سیکریٹری خزانہ اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری ترقیات رہے۔ ایک دوسرے افسر اس ادارے کے منیجنگ ڈائریکٹر تھے۔ چیئرمین صاحب کوئٹہ میں تشریف فرماتھے۔ صرف گھنٹوں کے لئے (دنوں کے لیے نہیں)کوئٹہ چھوڑتے تھے جبکہ منیجنگ ڈائریکٹر صاحب مہاجر اور اردو بولنے والا تھا وہ ہمیشہ کراچی میں رہتے تھے بلکہ انہوں نے اپنا ہیڈ آفس کراچی میں بنایا ہوا تھا۔وہ بھی صرف چندگھنٹوں کے لیے پسنی آتے تھے اور فوراً ہی کراچی واپس جاتے تھے۔ کام اور تعمیرات پر 1980کی دہائی میں کروڑوں روپے کا خرچ آرہا تھا وہ پسنی ماہی گیری بندرگاہ کے انچارج تھے ۔بہر حال کام پسنی میں تھا دونوں افراد کے ہیڈ کوارٹرز کوئٹہ اور کراچی میں تھے اور وہ اپنے فیملی کے ساتھ رہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی نہ کوئی نقص ضرور آئے گا جب کام مقامی افسران کے حوالے ہوگا اور اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہوگی چنانچہ غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے ریت کا رخ ماہی بندر کی طرف ہوگیا۔ طوفانی ہوائیں چلیں اور علاقے میں ریت کا طوفان آیا تو ریت سے کشتی رانی کا چینل بند ہوگیا ۔ماہی گیر کشتیوں کی آمدورفت بند ہوگئی اور اس طرح سے پورا کا پورا ماہی بندر ناکارہ ہوگیا۔ گزشتہ ایک دھائی سے زیادہ پسنی فش ہاربر ناکارہ پڑا ہوا ہے۔ دوست ممالک ہمیشہ کی طرح بلوچستان کی امداد کو دوڑے اورصوبائی حکومت کو مالی تعاون اور امداد کی پیشکش کی تاکہ پسنی فش ہاربر کو بحال کیا جائے۔ بیرونی امداد وصول ہونے کے بعد دنیا بھر کے بڑے بڑے اخبارات میں اشتہارات شائع کئے گئے جس میں کنسلٹنٹ کا انتخاب کیا گیا وہ آئے اور اس پر بحالی کا کام شروع ہوگیا۔ کنسلٹنٹ وفاقی حکومت کی منظوری سے ہوا اور اس کو ویزا اور اجازت نامہ بھی وفاقی حکومت نے تمام قواعد کے مکمل ہونے کے بعد جاری کیا۔ وہ آئے کام شروع ہوا، اچانک اس کی موجودگی بعض اہلکاروں کو اچھا نہیں لگا اور بعض اہلکار بضد تھے کہ اس کو ملک سے باہر نکالیں گے۔ حالانکہ حکومت نے خود اس کا انتخاب کیا تھا۔ ان کو ویزا دیا تھا اب اعتراض کس بات کا خصوصاً سالوں گزرنے کے بعد۔ بہر حال پسنی ماہی بندر بحالی کی حالت سے گزررہا ہے اور توقع ہے کہ وہ جلد دوبارہ کام شروع کردے گا۔ اس کا فالٹ دور کردیا جائے گا تاکہ ریت دوبارہ جہاز رانی کے چینل میں داخل نہ ہو۔ ساتھ ہی یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پسنی فش ہاربر کو ایک کامیاب منصوبہ بنائے تاکہ موجودہ معاشی بدحالی کے دور میں پسنی اور ساحل مکران کے لوگوں کو ایک امید نظر آئے کہ حالات بہتری کی طرف جارہے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی صوبائی اور سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ غیر ملکی ٹرالرز اور سندھ سے بڑی بڑی کشتیاں ممنوعہ علاقوں میں ماہی گیری نہ کریں۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں ان کی کشتیاں اور ٹرالرز ضبط کئے جائیں اور ماہی گیروں کو قید کی طویل سزائیں دی جائیں تاکہ کوئی بھی ممنوعہ علاقوں میں ماہی گیری نہ کرے۔ غرض پسنی کو معاشی سرگرمیوں کا بڑا مرکز بنایا جائے بلکہ اسی طرح کی بڑی بڑی ماہی بندر پورے مکران ساحل پر تعمیر کئے جائیں جس سے ملک زرمبادلہ کمائے اور ساتھ ہی ملک میں پروٹین کی ضروریات بھی پوری ہوں۔
پسنی فش ہاربر کا المیہ
وقتِ اشاعت : February 26 – 2016