|

وقتِ اشاعت :   February 26 – 2016

زبان کیا ہے اور کیونکر وجود میں آیا ہے ؟ ڈارون اور ساسر سے لے کرنوم چومسکی کی زبان اور دماغ‘‘ کی تھیوری تک لکھنے اور بولنے کے لئے اس میں بہت مواد دستیاب ہے ۔ مگر اس وقت موضوع زبانوں کی عالمی دن کے مناسبت سے ان کے تحفظ فروغ اور نمو کے سلسلے کا ہے ۔ اس تناظر میں یہ بات نہیں بھولنی چائیے کہ اس ڈسکورس یا بیانیے میں مرکزی حیثیت مادر ‘ مات ‘ لما ‘ یا ماں کی ہے ۔ یعنی وہ زبانیں جو ماں بولتی ہیں حالانکہ مادری زبان کے تعارف میں یہ بات ضروری نہیں ہے انگریزی میں اسے زبان اول کہا جاتا ہے ۔ یعنی وہ زبان جو بچہ ابتدائی عمر میں یا سب سے پہلے سیکھتا ہے لیکن یہ بھی فیکٹ ہے بچہ ابتدائی طورپر یا ابتدائی عمر میں اپنی ماں کی زبان سیکھتا ہے ما سوائے وہ یتیم نہ ہویا جنگوں کے دوران بچوں کا والدین سے بچھڑ کر دوسرے ممالک میں جانا یا لے جانا یا بچے کا کسی حادثے کے بعد اپنے والدین سے بچھڑ کر غیر زبان رکھنے والے افراد کے ہاتھوں پرورش پانا ‘ اس صورت میں بچے کی مادری زبان وہ نہیں رہتی جو پیدائش کے وقت اس کی ماں کی ہوتی ہے ان معاملات میں بچے کی مادری زبان وہ کہلاتی ہے جو وہ سب سے پہلے سیکھتی یا سیکھتا ہے چاہے اس کی اصلی ماں کی زبان کوئی بھی ہو ۔ اب سوال یہ ہے کہ تعلیم مادری زبان ہی میں کیوں ؟ یا انسان کو دوسری زبان کی نسبت اپنی مادری زبان کی کیوں ضرورت پیش آتی ہے ۔ پاکستان میں اس بیانے کو استحصالی طبقے نے کالاباغ ڈیم کی طرح سیاست زدہ کردیا ہے ۔ کنٹرولڈ پاکستانی میڈیا اس مسئلے کو اس زاویے سے پیش کرتا رہا ہے کہ گویا مادری زبانوں کی باتیں کرنے والے پاکستانی ریاستی زبان (قومی یا دفتری نہیں )اردو کے خلاف منصوبے کے تحت ایک سازش کررہے ہوں میڈیا نے اس بیانے کو اس قدر اچھالا ہے کہ اب تو مادری زبان کا لفظ سن کر خود اس زبان کے بولنے والے بھی آپ کو شک کی نگاہوں سے تاڑ لیتے ہیں کہ یہ شخض اردو اور وفاق کے خلاف سازش میں شامل ہے تو کیاں واقعی ایسا ہے کہ مادری زبانیں اردو کے کے لئے خطرہ ہیں ؟اگر ایسا ہوتا تو امریکا ‘ یورپ ‘ روس اور دیگر ریاستوں کی ریاستی یا دفتری زبانیں اب تک فوت ہوچکی ہوتیں لیکن وہ سب زندہ ہیں تو ہمارا لاڈلہ اردو کیونکر اتنا کمزور ہے جبکہ اس کا موالی اور غنڈہ باپ اسٹیبلشمنٹ اس کی حفاظت کے لئے محلے کے نکڑ پر کھڑا سب کی حرکت و سکنات کو نوٹ کررہا ہے ۔ موالی لوگ چونکہ دماغ سے زیادہ دل سے سوچتے ہیں اس لئے یہ غنڈہ بھی سمجھ کے بجائے جذبات کے بہاؤ میں بہہ کر الٹا اپنا نقصان کررہے ہیں آج ہمارے اردو گرد سب دو نمبر کیوں ہیں دو نمبر کا بلی گاڑی ‘ دو نمبر پولیس ‘ دو نمبر آئی جی ‘ دو نمبر انکم ٹیکس ‘ دو نمبر ڈاکٹر ‘ دو نمبر دوائی ‘ دو نمبر ادیب ‘ دو نمبر صحافی ‘ دو نمبر ادبی انجمنیں اور دو نمبر سیاستدان ؟ کیوں ؟ کیونکہ ہمیں پانچ سال سے 22سال تک زبان ہی دو نمبر پڑھائی جاتی ہے دو نمبر پڑھائی سے ایک نمبر آدمی کیونکر وجود پائے گا؟ آپ نہیں سمجھے؟اب سائنس اور خاص طورپر بائیولوجی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ بچے کا سیکھنے کا عمل ایک سال کے بعد نہیں بلکہ ماں کے پیٹ سے شروع ہوجاتا ہے ۔ ماں جو بولتی ہے اور جو سوچتی وہ سب بچے میں منتقل ہوجاتا ہے ۔نوم جومسکی کی کتاب Language and Mindمیں بھی یہ بات کی گئی ہے کہ انسان کی سوچ زبان سے نمو پاتی ہے اور زبان اس کے جینزArchyupe, Collective consciourابتدائی ماحول اس میں اس کا ماں کے پیٹ میں موجود ہونے کا وقت بھی شامل ہے ۔ بقول نوم چومسکی اس دوران ماں جو کرتی ہے جو سوچتی ہے اور جو بولتی ہے وہ بچے میں منتقل ہوتا جاتا ہے لیکن جب پانچ برس کی عمر میں جب بچہ اسکول جاتا ہے(یاد رہے اس عمر میں بچہ بیرونی دنیاسے نہ تو مانوس ہے اور نہ ہی اسکی پیچیدگیوں کا ادراک رکھتا ہے )تو اسے پس دکھا کر بکری یا Goatکہنے پر مجبور کیا جاتا ہے یہاں بچے کی صرف شناخت نہیں بلکہ انکا پیدائش سے پہلے اور بعد کا ماحول اس کا دماغ‘ جینزاس کی اب تک کی سیکھی گئی زبان سب اس بکری یا Goatکو رد کررہے ہوتے ہیں یا بزور طاقت یا بزور رغبت وہ اسے رٹا لیا جاتا ہے لیکن یہی سے بچے تو وہ دو نمبری والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے بعد میں وہ ڈاکٹر بنے یا ‘ انجئنئریا ‘ DCبنے جو بنے گا دو نمبر ہی بنے گا۔ اس کے بعد آپ دنیا جہاں کے نیب بنا لیں ۔ FiAبنا لیں ٹارچر سل وہ ان سب کو دو نمبر ہی سمجھے گا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ یہ سب بز ہیں ۔ اور آپ اپنی مرضی سے بکری بنائے جارہے ہیں ۔ اب ہمارے لاڈلے بچے اردو کے موالی باپ اسٹیبلشمنٹ ہر سال کرپشن کے خاتمے کے لئے قوانین بناتے پھر رہے ہیں لیکن کرپشن جڑ تو یہاں سے پکڑ رہی ہے وہ شاخین کاٹنے پر تلے ہیں اگر اس ملک کو سدھارنے کا کوئی حل ہے چاہے وہ سیاسی ‘ سماجی ہو ‘ معاشی واحد حل یہی ہے کہ بچے کو مادری زبان میں تعلیم دی جائے ۔ تعلیم جب اس کے ماحول ‘ تہذیب ‘ کلچر ‘ جینیز‘ کے مطابق ہوگی تو اس میں اعتماد آجاتا ہے اور جس فرد میں اعتماد آجاتا ہے اسے دو نمبر بننے یا دو نمبری کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ۔ موالی زبان میں سیکھنے کا نقصان یہ ہوجاتا ہے کہ جینین سے جنین بچہ اپنی تمام صلاحیتیں زبان سیکھنے میں ضائع کردیتا ہے اور ایجاد ات جو معاشی ‘ سیاسی یا ثقافتی میدان میں ہو ان کے لیے ان کے پاس قوت ہی باقی نہیں رہ جاتی ہے ہمارا سب سے زیادہ جینئس طالب علم یا تو سی ایس ایس کرجاتا ہے پروفیشنل ڈگری لے کر انجینئر یا ڈاکٹر یا ماہرزراعت بن جاتا ہے یا اسی سبجیکٹ میں کہیں لکچرارمقرر ہوجاتا ہے اس سے آگے کسی کی مجال ہے اس پس منظر میں جو کند زہن بچے ہیں پرائمری میں سکول چھوڑ جاتے ہیں درمیانے بچے میٹرک کے بعد پڑہائی کو غیر ضروری سمجھ کر خیر بادکہہ جاتے ہیں لیکن اس سیاق و سباق میں ہمارا لاڈلے بچے کے موالی باپ کون سمجھائے کہ تمہارے بچے کو محلے میں کسی سے کوئی خطرہ نہیں لیکن اس کے باپ کے خوف سے پورا محلہ سہما بیٹھا ہے پورے محلے کی اس ڈر کی وجہ سے سیاسی ‘ سماجی ‘ ثقافتی ‘ تہذیبی ‘ ماحول اور حیاتیاتی نشووونما رک گئی اور اگر موالی صاحب نے اس چیز کا ادراک نہ کرتے ہوئے بے پرواہی سے کام لیا تو یہ محلے حرکیاتی طورپر مفلوج ہوجائے گا ۔ ہم دنیا میں بھانچ کہلائے جائیں گے۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا دلچسپ بات یہ ہے کہ آج ہم یہاں مجمتمع ہو کر جس چیز کا رونا رو رہے ہیں یعنی مادری زبانوں کا مستقبل 1959میں بنگلہ کے ایک شہری رفیق الاسلام نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کوفی عنان کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے کوفی عنان کو اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کے مادری زبانوں کی تحفظ اور فروغ کے لئے استداء کی ۔ یونیسکو نے 17نومبر1999کو اسی خط کے پس منظر میں مادری زبانوں کے دن کا اعلان کیا ۔ بعد میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی نے 2000میں اس دن کو منانے کے لئے باقاعدہ قرار داد پاس کرکے تمام ممبر ممالک کو پابند کردیا ۔ دراصل اس قرار داد کی تاریخ 21فروری 1952میں ڈھاکہ میڈیکل کالج جواب یونیورسٹی ہے میں بنگلہ زبان کو مشرقی پاکستان کی دوسری قومی زبان بنانے کے لئے احتجاج کررہے تھے جن پر پاکستانی پولیس نے فائرنگ کردی جس میں پہلے شہید رفیق الدین احمد تھے ان کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ پاکستانی آرمی نے انہیں اس لئے دفن کردیا کہ اب اس کے مزار کی شناختی نہیں ہوسکتی لیکن بنگالیوں کو معلوم تھا کہ حقوق مرے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے وہ مرنے کے لئے تیار تھے اور لاڈلے بچے کا موالی باپ یہ سمجھنے سے قاصر تھا اس لئے بنگالی نہ صرف اپنی علیحدہ زبان بلکہ اپنی علیحدہ سرزمین ‘ قوم اور شناخت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور ہم اتھنڈ ‘ دو چابی اور یا حسینی منانے والے آج بھی بلوچی اکیڈمی کا ہاں انگر مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کے چکر میں ہیں ۔ اس لئے آج کی اس تقریب کے اختتام پر میری گزارش ہے کہ دعا کی جائے تاکہ ہمارے لاڈلے بچے موالی اور غندہ باپ کو خدا مادری زبانوں کی اہمیت کے ادراک کی ہدایت توفیق عطا فرمائیں ۔اس کے ساتھ یہ گزارش ہے کہ بلوچ ہیٹرو جنیئس قوم ہے اغیاء کی تسلیم اس کے تسلیم اس کے خو اور میارمیں شامل ہے بلوچستان میں ہزارگی ‘ پشتو ‘ سندھی ‘ پنجابی زبان کی مخالفت کبھی کسی بلوچ نے نہیں کی لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچستان کے ہزارہ ‘ سرائیکی ‘ پنجابی ‘ پشتو اور سندھی ‘ بلوچی کو پنجاب ‘ سندھ ‘ صوبہ خیبر ‘ افغانستان اور ایران میں رائج کرنے کے لئے اپنے بلوچ بھائیوں کا ساتھ دیں ۔ جہاں بلوچ بلوچستان میں رہنے والے تمام اقلیتوں کی نسبت زیادہ تعداد میں موجود ہیں ۔