افغانستان کے حکمران طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ نے پاکستان سمیت سرحد پار حملوں کو اسلام کے تحت حرام قرار دیدیا ۔
امریکی میڈیا کے مطابق اسلام آباد میں اعلیٰ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ طالبان کے سینئر رہنماؤں نے حالیہ دو طرفہ مذاکرات کے دوران ہیبت اللہ اخونزادہ کی طرف سے پاکستانی حکام کو آگاہ کیا گیا ہے تاکہ ان کے عزم کو اجاگر کیا جا سکے کہ وہ کسی کو افغان سرزمین سے دوسرے ممالک کو دھمکیاں دینے کی اجازت نہیں دیں گے۔
خیال رہے کہ یہ مسئلہ افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے آصف درانی اور ان کے وفد کی گزشتہ ماہ دارالحکومت کابل میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے ساتھ ہونے والی تین روزہ ملاقاتوں میں نمایاں طور پر سامنے آیا۔ یہ دورہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور شہریوں پر مہلک حملوں میں اضافے کے درمیان ہوا، کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے زیادہ تر تشدد کی منصوبہ بندی کی ذمہ داری قبول کی۔
کابل میٹنگز سے آگاہ سینئر پاکستانی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے اڈے اور سرگرمیاں بات چیت میں حاوی تھیں۔ شیخ ہیبت اللہ کے احکام تمام گروہوں کو پابند کرتے ہیں جو ان سے بیعت کرتے ہیں، اور ان کا حکم یہ ہے کہ پاکستان پر حملہ کرنا حرام ہے۔
پاکستانی فریق نے طالبان پر زور دیا کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کے افغان حامیوں کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے والی سرگرمیوں سے روکنے کے لیے اس حکم کو عام کریں۔طالبان رہنماؤں نے جواب دیا کہ ہم نے اسے اپنے لوگوں، [سیکیورٹی] فارمیشنز اور انٹیلی جنس کے درمیان پھیلایا ہے۔
دوسری طرف سرکاری افغان ٹیلی ویژن اسٹیشن نے طالبان کے وزیر دفاع محمد یعقوب کی تقریر کی آڈیو نشر کی، جس میں انہوں نے پہلی بار سرحد پار تشدد کے حوالے سے ہیبت اللہ کے حکم کے بارے میں چند تفصیلات کا انکشاف کیا۔
ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ملا یعقوب نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ طالبان کے سپریم لیڈر نے جہاد یا مقدس جنگ ختم کر دی ہے اور ان کے فرمان کی ”اطاعت“ سب کے لیے لازم ہے۔ اگر کوئی اب بھی افغانستان چھوڑ کر بیرون ملک جہاد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے مزید جہاد نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگر مجاہدین امیر کی طرف سے رکنے کے احکامات کے باوجود لڑنا جاری رکھیں تو یہ جہاد نہیں بلکہ دشمنی ہے۔
خیال رہے کہ طالبان امریکا اور نیٹو افواج کے خلاف دو دہائیوں پر محیط شورش کو اپنے اسلامی عقائد کا حوالہ دیتے ہوئے افغانستان اور اس کے حامیوں کے ”قبضے“ کے خلاف جہاد قرار دیتے ہیں۔
ہیبت اللہ نے جہاد کے خاتمے کا اعلان اگست 2021 میں اس کے سخت گیر گروپ کے دوبارہ اقتدار پر آنے کے بعد کیا جب تمام بین الاقوامی افواج ملک سے نکل گئیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق پاکستان بار ہا کہتا ہے کالعدم ٹی ٹی پی کے رہنماؤں نے، جو ہیبت اللہ سے وفاداری کا عہد کیا ہے، اور دیگر باغی گروپوں نے کابل میں طالبان کے اقتدار میں آنے اور پاکستان میں دہشت گردی کو تیز کرنے کے بعد سے اپنے آپریشن اڈے افغانستان منتقل کر دیے ہیں تاہم طالبان ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے شمال مغربی سرحدی قصبے خار میں سیاسی ریلی پر خودکش بمبار نے حملہ کیا جس میں 63 پاکستانی جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ داعش نے اس بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
خیال رہے کہ پاکستانی حکام نے کہا ہے کہ 12 جولائی کو جنوب مغربی شہر ژوب میں ایک فوجی اڈے پر حملے کے پیچھے ٹی ٹی پی کا ہاتھ تھا، افغان طالبان سے منسلک تین بھاری مسلح جنگجو تقریباً پانچ حملہ آوروں میں شامل تھے۔ اس حملے میں 9 پاکستانی فوجی شہید ہوئے تھے۔ جبکہ حملہ آور جہنم واصل ہوئے تھے۔