سندھ اور بلوچستان کے شدید احتجاج اور تحفظات کے بعد مردم شماری غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی گئی۔ سندھ کی حکومت نے باقاعدہ ایک آل پارٹیز کانفرنس طلب کی تھی جس میں متفقہ طور پر مردم شماری ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا بلکہ ساتھ یہ مطالبہ بھی تھا کہ صوبوں کو مناسب اور برابر نمائندگی دی جائے تاکہ آئندہ مردم شمار شفاف ہو اور پورے پاکستان کے عوام کو قابل قبول ہو۔ سندھ کو یہ شکایت ہے کہ گزشتہ مردم شماری میں اس کی آبادی کا تناسب ملک کا 25فیصدی تھا جس کو فراڈ اور جعل سازی کرکے صرف 23فیصد دکھایا گیا اور اس طرح سے سندھ کو پورے دور میں دو فیصد کم وسائل دیئے گئے جو ایک امتیازی سلوک ہے۔ اس طرح بلوچ قوم پرست جماعتوں نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ مردم شماری سے پہلے افغان مہاجروں کو واپس ان کے وطن بھیجا جائے تاکہ مردم شماری صاف شفاف اور مستقبل کی منصوبہ بندی ٹھوس بنیادوں پر ہو اور بلوچ عوام کے ساتھ فراڈ نہ کیا جائے ۔ مشترکہ مفادات کی کونسل میں بلوچستان اور سندھ نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ بعدازاں مشترکہ مفادات کی کونسل کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مردم شماری ملتوی کررہے ہیں کیونکہ سیکورٹی کی صورت بہتر نہیں ہے اور مسلح افواج حالیہ دور میں دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑرہی ہیں اور جو کامیابی کی منزلیں طے کرتی نظر آرہی ہیں۔ اس لئے افواج پاکستان پورے ملک کو مردم شماری کے لئے سیکورٹی فراہم نہیں کرسکتی۔ حالات میں بہتری کے بعد مسلح افواج یہ کام مناسب وقت میں انجام دیں گی۔ اس لئے مردم شماری جو اس ماہ ہونے والی تھی، غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی اور اس کی نئی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا بلکہ اس کا فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل کی آئندہ کے اجلاس میں کیا جائے گا جب تک ملک میں سیکورٹی کی صورت حال مزید بہتر ہوجائے گی۔ سندھ میں بعض حلقے مردم شماری کرانے کے مخالف ہیں اور یہ تجویز دیتے ہیں کہ دستیاب تفصیلات سے آبادی میں اضافے کا اندازہ زیادہ بہتر طریقے سے لگایا جاسکتا ہے لہٰذا اتنے وسائل اور افواج پاکستان کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔ دنیا بھر میں یہ نظام قائم ہے ہم بھی اس نظام کو اپنائیں۔ دوسرا مطالبہ سندھ کی مردم شماری کی کونسل میں بھرپور نمائندگی ہے جس کو تسلیم کرلیا گیا اور اس طرح سے صوبوں سے لوگوں کو نامزد کیا جائے گا خصوصاً صوبائی حکومتوں کی سفارشات کے بعد۔ بلوچستان کا معاملہ صاف ہے بلوچ عوام کو غیر قانونی تارکین وطن کی بڑی تعداد کی موجودگی میں مردم شماری کرانے پر اعتراض ہے۔ سرکاری سطح پر لاکھوں افغان باشندوں کو پاکستانی شناختی کارڈ اور دوسرے سرکاری دستاویزات دیئے گئے اور حکام نے اس کے بدلے بڑے پیمانے پر رشوت حاصل کی۔ آج بھی لاکھ سے زیادہ مشتبہ افغانی باشندوں کے شناختی کارڈ بلاک یا بند کردیئے گئے ہیں۔ ہزاروں جعلی درخواستیں پولیس کے پاس تحقیقات کے لیے پڑی ہوئی ہیں پہلے صوبائی حکومت ان تمام غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف بھرپور کارروائی کرے، ان سب کو گرفتار کرکے ان کو واپس اپنے وطن بھیجا جائے اور اس کے بعد مردم شماری کی جائے۔ پہلے حکومت افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجے تاکہ اقوام متحدہ کا پاکستان کی حکومت پر دباؤ کم ہو۔ اقوام متحدہ ناجائز پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ ان غیر قانونی تارکین وطن اور افغان مہاجرین کو ہمیشہ کے لیے پاکستان میں رہنے دیا جائے جو ناممکن ہے اور بلکہ عوام دشمنی ہے اور حب الوطنی کے خلاف ہے۔ لہٰذا افغانوں کو پہلے اپنے وطن واپس بھیجا جائے اور بعد میں مردم شماری کرائی جائے۔