|

وقتِ اشاعت :   March 5 – 2016

توقع کے مطابق الطاف حسین سے ناراض ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے اپنا ایک الگ دھڑا بنا لیا۔ اس کی سرپرستی انیس قائم خانی اور مصفطیٰ کمال کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنی نئی پارٹی کا نام نہیں رکھا یا اخبار نویسوں کو نہیں بتایا بہر حال انہوں نے متحدہ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس سے قبل 1992ء کی آپریشن میں ایک اور گروہ الگ ہوا اور آفاق احمد کی سربراہی میں قائم ہوا تھا۔ دونوں گروہوں میں سالوں تک خونی جڑپیں ہوئیں تھی۔ بہر حال موجودہ اختلافات زیادہ سنگین اور موثر معلوم ہوتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ الطاف سے ناراض متحدہ کے تمام رہنماء جلد یا بدیر متحدہ سے علیحدگی اختیار کرلیں گے۔ اس کے امکانات انتہائی کم ہیں کہ متحدہ کے ناراض لوگ جنرل مشرف کی پارٹی میں شامل ہوجائیں۔ زیادہ توقعات ہیں کہ مصطفیٰ کمال کے بنائے ہوئے گروپ میں اکثر ناراض ارکان، خصوصاً رابطہ کمیٹی کے ارکان اس میں شامل ہوں گے کیونکہ الطاف حسین نے ان کی سرعام بے عزتی کی تھی اور ان کو کارکنوں کے ہاتھوں پٹوایا بھی تھا چنانچہ وہ حضرات اپنا بدلہ ضرور لیں گے جب بھی ان کو موقع ملا۔ دوسری جانب ریاست اور ریاستی ادارے بڑی برق رفتاری سے متحدہ کے خلاف ثبوت جمع کررہے ہیں جس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ عنقریب حکومت متحدہ پر پابندی لگانے والی ہے اور خصوصاً اس کے بھارتی سیکورٹی ادارے را کے ساتھ تعلقات کی بنیاد پر۔ بعض کارکنوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے کہ انہوں نے بھارت جاکر گوریلا ٹریننگ حاصل کی تھی اور پاکستان واپس آکر ان کو ملک کے خلاف کارروائیاں کرنی تھیں ان میں سیاسی مخالفین کا قتل اور ٹارگٹ کلنگ بھی شامل تھا۔ ایسے سینکڑوں افراد گرفتار ہوئے ہیں جنہوں نے عدالتی افسران کے سامنے یہ گواہی دی کہ انہوں نے لوگوں کو متحدہ کے رہنماؤں کے احکامات پر قتل کئے تھے۔ بعض لوگوں نے تو سینکڑوں قتل کا انکشاف کیا ہے۔ ان میں سے ایک کو حال ہی میں مچھ جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔ پھانسی سے قبل انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ الطاف حسین نے ملک شاہد حامد کے قتل کا حکم سابق وفاقی وزیر بابر غوری کے ذریعے دیا تھا۔ تاہم بابر غوری کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی شاید ان سے زیادہ اہم کام لیا جانا ہے۔ موجودہ دھڑے بندیوں سے متحدہ کو زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے کیونکہ جب تک متحدہ کا فوجی ونگ یا مسلح دستہ مضبوط ہے لوگ خوف کی وجہ سے متحدہ سے علیحدگی اختیار نہیں کریں گے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ متحدہ کے مسلح دستوں میں کتنے لوگ بھارتی افواج سے تربیت یافتہ ہیں۔ ان میں کیا صلاحیت ہے کیا وہ رینجرز کے حملوں کی مزاحمت کرسکیں گے۔ بہر حال عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی متحدہ اور الطاف حسین کا حامی ہے اور ان کے خلاف کچھ بھی سننے کو تیار نہیں ۔ اگر صورت حال یہی رہی اور اس میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی تو متحدہ کے خلاف ایک بڑا محاذ بن ہوسکتا ہے اور جواباً وہ حکومت کے لیے زیادہ مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں اگر یہ بات درست ہے اور پروپیگنڈہ نہیں ہے کہ متحدہ کا تعلق بھارتی سیکورٹی ادارے را سے ہے تو بھارت اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا تاکہ پاکستان کے لیے زیادہ سے زیادہ مشکلات کھڑی کی جائیں۔ بھارت کی حمایت سے متحدہ زیادہ مضبوط اور متحد نظر آئے گا، اس کے مخالفین کنارہ کش ہوجائیں گے یا تنہا رہ جائیں گے جو حکومت کی کوئی مدد نہیں کرسکیں گے۔