اپنے وسائل کے مقابلے میں بڑھتے ہوئے اپنے اخراجات کو پورا کرنے کیلیے حکومت کا انحصار نجی قرضوں پر بڑھتا جا رہا ہے، حکومت نے کمرشل بینکوں سے 3ماہ (ستمبر-نومبر 2023) میں 11.04 ٹریلین روپے کے نئے قرضے لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
نئے قرضے لینے کے منصوبہ اس وقت سامنے آیا جب بینکوں نے حکومت کیلیے 3 سے 12 ماہ کی مدت کے مختصر مدت کے قرضے پرتاریخی بلند ترین 25 فیصد شرح سودمقرر کردی، تاہم قرض لینے کیلئے حکومت کی نئی پالیسی دکھائی دے رہی ہے جس کے تحت حکومت نے طویل مدت کیلئے سستے قرضے لینے اور مختصر مدت کے مہنگے قرضوں پر انحصار کم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
یہ تبدیلی تیزی سے بڑھتے ہوئے مہنگے قرضوں کی جگہ سستے قرضے لیکر ٹیکس محصولات کو بڑھاکرقرض واپسی کیلئے وقت حاصل کیا جا سکے، اس قرض کا ایک اہم حصہ تین ماہ میں 9.23 ٹریلین روپے کے پرانے مہنگے قرضوں کی ادائیگی کیلئے استعمال کیا جائے گا۔
نئے قرضوں میں بقیہ 1.81 ٹریلین روپے حالیہ دنوں میں غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد میں کمی، ٹیکسوں کی مد میں کم وصولی، شرح سود میں اضافے کے تناظر میں کل قرضوں پر زیادہ سود کی ادائیگی اورغیر ترقیاتی حکومتی اخراجات کی مد میں خرچ کی جائیگی ،حکومت کمرشل بینکوں کو اپنے ٹی بل فروخت کرکے 8.70 ٹریلین روپے اکٹھا کرے گی جبکہ اس نے تین ماہ میں مختصر مدت کے بلز کی میچورنگ کے 9.29 ٹریلین روپے کی ادائیگی بھی کرنا ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت 10 سال تک کے طویل مدتی ٹی بلزکی ادائیگی کیلئے تقریباً 600 ارب روپے مزید ادا کریگی،یہ 3 سال سے 30 سالہ پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز (PIBs) کی نیلامی کے ذریعے 2.10 ٹریلین روپے حاصل کرے گا اور مزید 180 بلین روپے طویل مدتی شریعہ کے مطابق قرض کے آلات سے حاصل کرے گا۔
عارف حبیب لمیٹڈ کی ماہر معاشیات، ثناء توفیق نے کہا کہ کل قرضوں پر سود کی ادائیگی پاکستان کیلئے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے،حکومت کو رواں مالی سال 2023-24 میں سود کی ادائیگی میں 8.5 ٹریلین روپے کی بھاری ادائیگی کا تخمینہ ہے جو گزشتہ سال 7.3 ٹریلین روپے تھی۔