|

وقتِ اشاعت :   March 6 – 2016

نصیر خان میرے بچپن کے دوستوں میں شمار ہیں جیسے کہ آپ کو معلوم ہے ا صل دوستی بچپن کی ہوتی ہے کیونکہ بچن کا زمانہ خلوص کا زمانہ ہوتا ہے اس زمانے میں اغراض و مقاصدنہیں بلکہ خلوص غالب رہتا ہے کھیل کود ،گھرسے ملی ہوئی یومیہ خرچہ، بلا تکلف دوستی انجام و غایت سے بے پرواہ سیر و سپاٹے بے معنی مگر پر جوش مجلسیں،دوسروں کی طرح میر ے اور نصیر خان کی قیمتی یا دیں ہیں محلے کے گلی و کوچوں میں گھو منا ، ٹلی، فٹو گرم ، کو کے ، لپی جھپی کا ، بھیڈی ، چیدو ، مل ،جھو ، ٹلو ، جیسے بے شمار کھیل وکود مٹی میں لیٹنا ایک دوسرے سے لپٹنا کپڑے گندے کرنا ،گھر سے سرزنش کھانا قیمتی مگر گزر کر نہ لو ٹنے والے سرمایہ ہیں اس لئے شاعر نے خوب کہا کہ مجھ سے میر ا سب کچھ لے لو مجھے میرا بچن اور مٹی کے کہلونے لو ٹا دو بعد از بلوغ تو بات چیت سلام و دعا خو شی و غم میں شرکت ایک خا ص مقصدکے تحت ہوتا ہے۔ لو ہم بھی بچن کی یادوں میں کھو گئے ہمار اتو مو ضوع بلوچ کلچر ڈے کے حوالے سے کچھ معروضات عرض کرنا تھا ۔گزشہ روز نصیر خان اچانک گھر تشریف لائے میں نے کہا آجائیں نصیر خان صاحب تشریف لائے میرے ان الفاظ کی ادائیگی پر نصیر خان خوش ہونے کے بجائے منہ چڑ ھاکر کہا کہ آپ کی زبان سے میرے لئے یہ آداب اچھے نہیں لگتے ، آپ مجھے نصو کہہ کر پکا ریں تو ایک دم بچپن سامنے آ جا تا ہے ، نصیر خان نے کہا کہ یار آج میں ایک خاص مقصد لیکر آیا ہوں ، خیر تو ہے نصو بھائی یا ر جیسے کہ آپ کو معلوم ہے کہ کل 2 مارچ ہے بلو چوں کا کلچر ڈے ہے ، مجھے ، ایک خو بصورت بلوچی دستار ، شیشوں و رنگ برنگی دھاگوں سے مزین ٹوپی ، لاٹھی ( لٹ ) بگٹیوں کی مزین جیکٹ ( باسکٹ ) ،چاہیل و بلوچی چہوَ ٹ کی ضرورت ہے ایک ایسا لباس جسے پہن کر میں 2 مارچ کے دن مکمل بلوچ ثقافت کا نمونہ بن جاؤ ں ،میں نے کہا ۔ نصو یار ان ساری چیزوں کا ملنا مشکل کیا مشکل تر ہے کیونکہ ان ساری چیزوں کو ہم نے کباڑ خانوں کے حوالہ کردیا ہے ، نصیر خان نے کہا کہ ہاں یار ہمارے پاس بھی کسی زمانے میں یہ ساری چیزیں ہوتی تھیں افغانستان سے آئے ازبکوں کو ہم نے یہ ساری چیزیں کھوٹ، ٹھپر ،کچی ، تو رہ ، حتیٰ کہ اپنے دادا کے وہ قیمتی اسپر تلوار بھی معمولی قیمت میں بیچ دیا جو انہوں نے نصیر خان نوری کے ہمراہی ، دہلی ، مشہد ، پانی پت میں جوہر بلوچ بنا کر پیش کیا تھا میں نے نصیر خان کی تجسس کو مزید بڑھا کر کہا نصیر خان ہم بلو چ ہیں ، ہمیں اپنے قومی شناخت اور اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ پر فخر ہے لیکن ہم نے اپنی تہذیب و ثقافت کو کس طرح مسلا ہے روندا ہے بیچا ہے بے وقعت کرکے گلی نا لیوں میں بہا دیا ہے اس کے ذمہ مہ دار بھی تو ہم خود ہیں اس قومی المیہ کو کس کے کھا تے ڈالیں جب ہم یہ کہتے ہیں کسی بھی قوم کی پہچان اس کی تہذیب ہوتی ہے جب ہمارا یہ دعوی ٰ ہے کہ ہماری تہذیب و پہچان قدیم ترین تہذیبوں میں سے ہے بہترین رو ایات و اقدار ہماری پہچان ہیں اور کیوں نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالی ٰ کی آخری شریعت دین فطرت اسلام نے بھی بلوچی روایا ت کو نو ے فیصد جوں کا تو رکھا، داڑھی سے مزین مردانہ رعب سے سجا ہوا چہرہ ،داڑھی پر ہاتھ پھیر کر وعدہ وعید داڑھی کی بے حرمتی پر تلواروں کا نیاموں سے باہر آنا خون ریز جھڑپیں چاکر بلوچ کا عمل ، سر پر کانوں کی لوتک لمبی زلفیں، سنت رسول ﷺ کے مطابق سر پر سجانے کے لئے تاج بلو چان، بلوچ کی پگڑی اچھالنے پر بلوچ قوم کے غیض و غضب کا سا منا، رہن سہن کے طور طریقے، کھلا ڈلا لباس بلوچ خواتین کے لئے موٹا ( مو ننگا گڈر )جسم کے خد و خال و حسن کوتماشائے عام سے بچانے کے لئے لمبی چادر ، مہما ن داری ،مہمان نوازی ، ہمسایہ کے حقوق کی پاسداری عہدو پیمان کے لئے جان دینا، حیا داری و عفت پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ سلوک بلوچ کی تاریخ کے انمول یادیں ہیں۔ یا ر نصو بھائی ایک دن بعد آپ کے مطابق بلوچ کلچر ڈے ہے ہم اپنی تہذیب کو ڈھونڈنے نکلے ہیں، لیکن ہماری تہذیب خود ہم میں مفقود ہے ہم اپنی تہذیب کے کچھ حصے بیچ گئے ہیں ، کچھ کو ذاتی مفادت کی بھینٹ چڑ ھا دیا ہے ، دستار بلوچ سر سے اتر گیا ہے نوری نصیر کی زلفیں و داڑھی جس پر پوری قوم بلوچ فخر کرتی ہے کہاں ہیں ،کیا ہم روازانہ نائیوں کو اپنی زلفیں بے دردی سے کاٹ کر نالیوں میں بہانے کے لئے حوالہ نہیں کرتے ؟کیابلوچ خواتین وہ بلوچی لباس پسند کرینگی جس سے وہ مون گڈری کھلائیں، کیا ہم نے اپنی پہچان، اپنی بولی کو ا نگریزی و اردو زدہ نہیں کیا ہے؟ ہمارے بچے کَلّی، خوا ،ہیزک ، وٹھی خریش ، شیرہ ،خاسن پنیر کو جانتے ہیں نصو بھائی اگر ان تمام سوالوں کا جو اب نہیں میں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسی علامت باقی نہیں رہی ہے جس کی وجہ سے ہم بلوچ کہلائیں فقط یہ کہ ہم نام کے وہ بھی ایک دن کے بلوچ ہیں یہ بلوچیت پورا سال غائب رہتی ہے 2 مارچ کو ہم اس کو ڈھونڈتے ہیں وہ بھی مشکل سے مل جاتی ہے ، نصو بھائی یہ وہ حقائق ہیں جوہر محب قوم و وطن کو دعوت فکر دیتی ہیں کہ ہماری تہذیب و ثقافت کو بیرون دنیا سے اپنوں سے مٹ جانے کا خطرہ ہے ، نصو بھائی نے کہا صحیح یار، واقعی آپ کی باتیں قابل توجہ ہیں میری دعا ہے کہ میری یہ معروضات نصوبھائی کی طرح ہرایک بلوچ بھائی کے لئے قابل توجہ ہوں۔