|

وقتِ اشاعت :   September 7 – 2023

غذائی تحفظ کسی بھی ملک کی معاشی صورتحال کی جانچ کیلئے ایک اہم اشاریہ تصور کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے غذائی تحفظ کے مطابق غذائی تحفظ سے مراد تمام افراد کو ہمہ وقت محفوظ اور صحت بخش خوراک تک رسائی ہے جس سے وہ ایک صحت مند زندگی گزار سکیں۔پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق16فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے اور تقریباً5میں سے 3گھرانے ایسے ہیں جن کو غذائی تحفظ حاصل نہیں۔ایسے میں زراعت کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اگرچہ پاکستان کی معشیت میں زراعت کا کردار نہایت اہم ہے مگر بڑھتی ہوئی آبادی اور انکی ضروریات اور قدرتی آفات اور دیگر عوامل سے متاثر ماحول میں پاکستان کیلئے اپنی آبادی کیلئے خوراک کی یقینی فراہمی اور معشیت کیلئے دیگر اجناس کی دستیابی چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔
ان حالات میں ضروری ہے کہ زراعت کے روایتی طریقوں سے ہٹ کر جدید زرعی تحقیق کو پاکستان کے کسانوں تک پہنچایا جائے اور بہتر پیداوار حاصل کرکے غذائی تحفظ اور معاشی ترقی کو یقینی بنایا جائے۔پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن نے ان غیر روایتی طریقوں کو اپنانے کا فیصلہ جلد ہی کرلیا اور ملک میں ٹنڈو جام کے مقام پر پہلا زرعی تحقیق کا ادارہ 1963ء میں قائم ہوا جسے1998ء میں NIA کا نام دیا گیاجسکا مقصد ایٹمی توانائی کے پر امن استعمال کو بروئے کار لا تے ہوئے بہتر پیداوار اوردیگر زرعی مسائل کا حل شامل تھا یہ ادارہ پلانٹ بریڈنگ ، پلانٹ پروٹیکشن اور زمینی ساخت اور پودوں کی نشو نما کے دیگر شعبہ جات میں ہمہ تن مصروف تحقیق ہے۔ پلانٹ بڑیڈنگ کے شعبے نے اب تک زیادہ پیداوار اور ماحول سے مطابقت رکھنے والی کئی درجن اہم فصلوں کی اقسام کو متعارف کروایا ہے۔
اس سیریز کے دوسرے قائم ہونے والے ادارے کا نام نیوکلئیر انسٹی ٹیوٹ برائے زراعت اینڈ بائیو لوجی (NIAB)ہے جسکا قیام 1972ء میں عمل میں لایا گیا۔ اسکا مقصد بھی نئی اور بہتر اقسام کو متعارف کر وانا تھا نیز دیگر اہم زرعی مسائل کے حل کیلئے بھی یہاں تحقیق پر زور دیا گیا ۔ یہاں پر 4اہم ڈویژن چار اہم شعبوں میں تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں ان میں نئی اقسام کی تیاری کا شعبہ ، پودوں کی حفاظت کا شعبہ، زمینی اور ماحولیاتی تحقیق کا شعبہ اور مویشیوں کے تحقیق کے شعبہ جات شامل ہیں۔
اب تک اس ادارے نے مختلف زرعی اجناس جس میں گندم ، کپاس ، چاول ،چنا ، مونگ ، سرسوں اور کینو کی تقریباً65اقسام متعارف کروائی ہیں۔NIAB کی کپاس کی قسمNIAB-78 سے کون واقف نہیں جس نے ملک میں کپاس کی پیداوار میں انقلاب بر پا کر دیا ۔ اسی ادارے نے زمین میں کھاد کی مقدار اور استعمال کیلئے نہایت جدید تحقیق کی اسی طرح ملک میں کلراٹھی زمینوں کے تدارک اور وہاں اگائی جانے والی مختلف پودوں کی اقسام کو تجویز کیا کلر گھاس ان میں ایک مشہور گھاس کی قسم ہے۔فصلوں کو کیڑوں اور دیگر نقصان دہ عوامل سے بچانے کے سلسلہ میں بھی یہاں تحقیق کا کام جاری ہے۔مویشیوں کی بیماریوں کیخلاف ویکسین اور انکی غذائیت کیلئے مخصوص Feed Blockبھی NIABمیں بنائے جا رہے ہیں۔
نیوکلئیر انسٹی ٹیوٹ فار فوڈ اینڈ ایگریکلچر (NIFA)کا قیام 1982ء میں پشاور میں عمل میں آیا۔ اس ادارے نے نہ صرف فصلوں کی نئی اقسام کو متعارف کروایا بلکہ اسکے علاوہ خوراک کو محفوظ بنانے کے مختلف طریقوں کو بروئے کار لاکر خوراک کو زیادہ عرصہ تک ذخیرہ کرنے کی تحقیق کی۔ یہ ادارہ اب تک گندم کے بیجوں اور چنے کی کئی درجن اقسام متعارف کروا چکا ہے۔ NIFAمیں گندم میں آئرن کے اجزاء کو شامل کرکے آٹے کو صحت بخش بنانے کا پرا جیکٹ بھی جاری ہے۔ اسکے علاوہ اجناس کو محفوظ بنانے کی خدمات بھی یہاں جاری ہیں۔
کمیشن کا چوتھا زرعی تحقیق کا مرکز NIBGEنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار بائیو ٹیکنالوجی اور جنٹیک انجنئرنگ فیصل آباد میں 1994ء میں قائم ہوا۔ اس مرکز میں چار اہم ڈویژن ہیں جن میںAgriculture Biotechnology , Industrial Biotechnology, Health Biotechnology اورEnvirnoment Biotechnologyشامل ہیں۔چھ اہم اجناس جس میں کپاس ، گندم ، چاول ، گنا ، آلو اور تیل کے بیج شامل ہیں پر اہم جینیاتی کام ہورہا ہے اور بہتر اقسام کی تیاری مختلف مراحل میں ہے۔ صنعت کے شعبے میں Fossil Fuel اور Oresکی Bio-processingکے علاوہ صنعتی اینزائمز، بائیو Fuels نینو ٹیکنالوجی پر بھی تحقیق جاری ہے۔ماحولیات کے شعبے میں (FTWS)کا استعمال جس سےIndustry میں استعمال شدہ پانی کو صاف کیا جا رہا ہے اوراس وقت OGDCL ،WASA فیصل آباد اور Toyota Motorsفیصل آبادجیسے ادارے اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔
کمیشن کے زیرِانتظام زرعی تحقیق اور اس متصل دیگر شعبہ جات کے اداروں اور انکے شعبوں کے ایک مختصر جائزے سے یہ بات عیاں ہے کہ یہ ادارے زراعت کی ترقی اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ناگزیر ہیں۔150اہم اجناس کی زیادہ پیداوار اور ماحول سے ہم آہنگ نئی اقسام کی دریافت ، زمین میں کھادوں کی بروقت اور مناسب مقدار کا تعین، کلرا ٹھی زمینوں کو قابلِ کاشت بنانا، خوراک کو محفوظ کرنا، فصلوں کو کیڑوں اور دوسرے نقصان دہ عوامل سے بچانا اور صنعتی فضلے کو قابلِ استعمال بنانے کیلئے اہم شعبہ جات میں مسلسل تحقیق ہی کمیشن کا لائحہ عمل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اداروں کی مزید حوصلہ افزائی کی جائے اور ان جیسے دیگر زرعی تحقیق کے مراکز کے تعاون کو بڑھا کر ملکی ترقی اور غذائی تحفظ جیسے چیلنجز کا بہتر انداز میں مقابلہ کیا جائے تاکہ ملکِ عزیز ان کی خدمات سے فائدہ اٹھا کر بہتر معیشت اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کی منزل پر گامزن رہے۔