|

وقتِ اشاعت :   September 7 – 2023

ستمبر کا مہینہ ان شہیدوں کی یادگار ہے جنہوں نے ملکی دفاع کے لیے بے مثال قربانیاں پیش کیں۔ زندہ قومیں اپنے شہیدوں کی قربانیوں کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دیتیں۔ 6ستمبر1965 ء کے دن ایک امن پسند ملک کے دفاع کو ایک ایسی آزمائش میں ڈالا گیاجس کا منہ توڑ جواب دینا نہ صرف ملکی سا لمیت کے لئے ضروری تھا بلکہ قومی غیرت اور حمیت کا تقاضہ بھی تھا۔ الحمدللہ پاکستانی قوم اس آزمائش کی گھڑی میں ثابت قدم رہی۔ملکی سا لمیت سے متعلق فیصلے جب لقمہِ تر کے حساب میں ہونے لگیں توکمزور ملکوں کا انجام سامنے رکھ کے سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بقول شاعر
؎ جب تک نہ جلیں دیپ شہیدوں کے لہو سے
کہتے ہیں کہ جنت میں چراغاں نہیں ہوتا
جدید ملکی دفاع میں سائنس ٹیکنالوجی اور دیگر عصری علوم کی بہت اہمیت ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی انسانیت کی مشترکہ میراث ہے اور اس سے انسانیت کی فلاح کا کام لینا ہر ملک کا بنیادی حق ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان امن پسند لوگوں کی سرزمیں ہے اور امن جنوب مشرقی ایشیا کے لوگوں کی بہت بڑی ضرورت بھی ہے لیکن قوموں کی زندگی میں امن کا حصول دفاعی تیاری کے بغیر ممکن نہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ :
؎ تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
دفاع کا میدان ہو یا ملکی ترقی کا، پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن نے ہمیشہ نمایاں کردار ادا کیا ہے۔حالیہ برسوں میں توانائی کی ملکی ضروریات روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ نہ صرف گھریلو صارفین کے لیے بلکہ صنعت کی ترقی کے لیے بھی ہمیں سستی بجلی کی ضرورت ہوگی ۔ اس ملکی ضرورت سے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن اور ملک کی ترقی کی منصوبہ بندی کرنے والے افراد اور ارباب اختیار بخوبی آگاہ ہیں۔ حال ہی میں پاکستان اور چین کے باہمی تعاون سے نیو کلئیر پاور کے جس منصوبے کی بنیاد رکھی گئی ہے اس کی پیداواری صلا حیت 1200میگاواٹ ہے اور اسے چشمہ نیوکلئیرپاور پلانٹ یونٹ 5کا نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے ہر پہلو میں کفایت شعاری اور منصوبہ بندی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ہمارے دوست ہمسایہ ملک چین کے ساتھ اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ2017-18ء میں لگایا گیا تھا۔اس وقت سے عالمی کساد بازاری کے حالات میں اس منصوبے کی لاگت میںنہ صرف اضافہ ہو گیا ہوتا بلکہ شرح سود بھی بڑھ گئی ہوتی ۔ لیکن ہمارے دوست ملک چین نے نہ صرف اس منصوبے کی لاگت وہی رکھی بلکہ اس میں مزید رعایت بھی فراہم کی۔ جو کہ ان مشکل حالات میں پاکستان کے ساتھ دیرینہ دوستی کی علامت ہے۔حکومت پاکستان کے جاری کردہ پروگرام کے مطابق وسط مدتی اقدامات کے تحت نیوکلئیر توانائی کی پیداوار کی پیداوار کو 2030ء تک 8,800 میگا واٹ اور2050ء تک 42,000 میگا واٹ بڑھانا ہو گی۔اس طویل المدت منصوبے کی تکمیل میں یہ نیوکلئیر پاور پلانٹ اہم کردار ادا کرے گا۔
موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کو روکنا بھی اب وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے۔کاربن کے اخراج کے تدارک کے حوالے سے بھی نیوکلئیر پاور پلانٹس بہت اہمیت رکھتے ہیں اور توانائی کے یہ ذرائع ماحول دوست بھی ہیں۔کیونکہ ان سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایٹمی بجلی کے سستے اور ماحول دوست ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک کیوبک سینٹی میٹرایٹمی ایندھن کی مقدار ایک ایٹمی بجلی گھر میں اتنی توانائی پیدا کرسکتی ہے جتنی 68ٹن کوئلہ جلا نے سے پیدا ہوگی اور اس عمل میں ماحول کے لیے ضرر رساں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بھی پیدا نہیں ہوتی۔ اتنی مقدار میںکوئلے کی نقل و حمل کے اخراجات اس سے الگ ہوں گے۔ ایک اور مثال کے مطابق کوئلے سے بجلی پیداکرنے والے پلانٹ سے آلودگی پیدا کرنے والی گیسوں کے اخراج کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے کوئلے کے پاور پلانٹ سے سالانہ 6 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج ہوتاہے جبکہ اس کے مقابلے میں ایک ایٹمی بجلی گھر سے ان گیسوں کا اخراج نہ ہونے کے برابر ہے۔
سستی بجلی ملکی ترقی کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے توانائی کے سستے ذرائع سے نہ صرف بین الاقوامی مارکیٹ میںمصنوعات کا معیار بہتر ہوتا ہے بلکہ اس کی پیداواری لاگت بھی کم ہوجاتی ہے ۔ کسی ملک کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے ساتھ اس کی توانائی کی ضروریات بڑھتی ہیں اور دوسری طرف توانائی کی پیداوار بڑھنے سے ملک کی معاشی اور معاشرتی صورتِحال بہتر ہوتی ہے،یہ د و طرفہ عمل ہے ۔ جہاںآج کل توانائی کے ذرائع میں نئی نئی جدّتیں آتی جارہی ہے وہاں اس بات کی کوشش بھی کی جارہی ہے ممکنہ توانائی کے حصول کے ذرائع ما حول دوست ،محفوظ اور قابلِ بھروسہ(Reliable)ہوںـ۔ایٹمی توانائی بجلی کے حصول کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو ان دونوں معیارات پر پورا اترتا ہے اور اس سے کاربن اور ماحولیاتی گیسوں کا اخراج بھی نہیں ہوتا۔
پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن نے کراچی کے مقام پر کینوپ کے نام سے 1972؁ میںکینیڈا کے تعاون سے پہلا ایٹمی بجلی گھر لگایا اور یوں اس وقت کی جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوے ملک میں ایک نئے عہد کا آغاز ہوا۔ پاکستان ان چند ترقی پذیر ملکوں میں شامل ہے جنہوں نے بہت پہلے ملکی ترقی کے لئے ایٹمی توانائی کی اہمیّت کو سمجھا اور اس کے پر امن استعمال کو اختیا ر کیا ۔ کم و بیش 50 سال کے عرصے میں پاکستان نے ایٹمی توانائی کے میدان میں قابل ِقدر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔پاکستان کے ایٹمی بجلی گھر وں کی کارکردگی کااعتراف بین الاقوامی ماہرین نے بھی اپنی کیا ہے ۔ چشمہ کے مقام پر 4 پاور پلانٹس ایٹمی توانائی کمیشن کی کامیابی کی ایک نئی داستان ہیںان نیو کلیر پاور پلانٹس سے 1330 میگاواٹ بجلی پاکستان کے نیشنل گرڈ کو مہیّا کی جا رہی ہے۔ اسی طرح K-2اور K-3 کے جدید نیوکلئیر پاور پلانٹس سے 2200میگا واٹ سے بھی زیادہ بجلی پیدا کی جارہی ہے بجلی کی پیداوار میں یہ چھ نیوکلئیر پاور پلانٹس مجموعی طور پر 3500میگا واٹ بجلی قومی گرڈ کو فراہم کر رہے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے ملک میںلگائے جانے والے ایٹمی بجلی گھر پندرہ سے اٹھارہ ماہ تک پیداواری ایندھن کو ذخیرہ کرنے کی سہولت رکھتے ہیں ۔ اس طرح لمبے عرصے تک ایٹمی ایندھن ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے انہیں مسلسل ایندھن کی کمیابی کا خطرہ نہیںرہتا جیساکہ دیگر ذرائع میں رہتاہے۔ ان پاور پلانٹس کی ایک اور خاص بات ان کاجدید ڈیزائن ہے جس سے بجلی کی مسلسل پیداوار ممکن ہوتی ہے نیز ان پلانٹس کی ڈیزائن لائف(Design Life) بھی 60 سال ہے جس میں مزید اضافہ بھی ممکن ہے۔
ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے سائنسدان، انجنئیراور ٹیکنیشن اس نئے منصوبے کے آغاز سے ملکی خدمت کے ایک نئے جذبہ سے سرشار ہیں۔ اس منصوبے کے آغاز میں جو شبانہ روز محنت کی گئی ہے اس نے ثابت کردیا ہے کی پاکستان یٹمی توانائی کا مستقبل قابل اعتماد اور محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ ملک کو دفاع وطن کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کا افتتاح بھی مبارک ہو۔ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملک کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالے اور یوں اس یوم دفاع کو قائد اعظم کے اس فرمان کے کو پیش نظر رکھے کہ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتے۔
؎ اگر ہو جذبہ تعمیر زندہ ، تو پھر چیز کی ہم میں کمی ہے

 


(غلام مصطفٰی ایک انجنئیر اور مصنّف ہیںاور وہ سائنسی موضوعات پر مضامین لکھتے رہتے ہیں)