اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی معیشت اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔
ڈالر اور تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے، غریب کیلئے اپنے بچوں کو تعلیم و صحت کے سہولیات دینا تو درکنار دو وقت کی روٹی بھی مہیا کرنا محال ہو رہا ہے۔ انہی حالات میں جب سے نگران حکومت نے اقتدار سنبھالی ہے تو اس نے اس معاشی بحران سے نکلنے کیلئے ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے.
بلکہ اس کا آغاز بھی کر دیا ہیجس سے ملکی معیشت میں وقتی بہتری ہونے لگی ہے ۔اس سمگلنگ میں ایران سے تیل بھی شامل ہے۔ ایک عام اعداد و شمار کے مطابق ایران سے سالانہ دو ارب اکاسی لیٹر تیل سمگل ہوتا ہے۔اور اس کاروبار سے 15 لاکھ لوگ منسلک ہیں تازہ ترین رپورٹ یہ بھی ہیں کہ اس سمگلنگ میں 29 سیاستدان اور 90 اعلیٰ سرکاری آفیسران بھی شامل ہیں.
جن کے نام ابھی تک صیغہ راز میں رکھے گئے ہیں۔ ایرانی تیل کے ساتھ اگر دوسرے ضروریات زندگی اور اشیاء خورد و نوش کے سمگلنگ کو شامل کیا جائے تو ان کا سالانہ تخمینہ 481 ارب روپے بنتا ہے جو بلوچستان کے سالانہ ترقیاتی بجٹ سے زیادہ ہے۔ ایرانی تیل کو جو ایران سے 25 روپے لیا جاتا اور پاکستان میں 260 سے 280 روہے بیچا جاتا ہے اور 150 روپے ایک لیٹر پر منافع حاصل کیا جاتا ہے۔ صوبے کے 15 لاکھ افراد اس کاروبار سے منسلک ہیں ۔
صرف کوئٹہ شہر میں 995 منی پمپس ہیں وہ تو ماہانہ محض 50 سے 60 ہزار روپے تک کما پا رہے ہیں جس سے وہ اپنے گھر کا چولہا جلا رہے ہیں۔ باقی جو اربوں روپے ہیں تو وہ مذکورہ سیاستدانوں اور اعلیٰ سرکاری آفیسروں کے جیبوں میں جا رہا ہے۔ جب بھی کریک ڈاؤن ہوتا ہے ۔
تو سارا زور منی پمپس پر دیا جاتا ہے اور ایک عام غریب شہری کا روز گار چھینا جاتا ہے حالانکہ ان منی پمپوں سے زیادہ ایرانی تیل تو بڑے بڑے رجسٹرڈ پمپوں میں سرکاری نرخوں پر فروخت ہوتا ہے جہاں راتوں رات ہزاروں لیٹر غیر قانونی ایرانی تیل ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح دیدہ دلیری اور سیاستدانوں اور سرکاری آفیسروں کی ملی بھگت سے عوام کو لوٹا جاتا ہے۔
ماضی میں بھی ایران سے ہونے والے سمگلنگ کو روکنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔
مگر اس کاروبار میں ملوث با اثر سیاستدان اور آفیسران نے غریبوں کی روز ی کو جواز بنا کے ان حکومتی کوششوں کو کامیاب ہونے نہیں دیا۔
حالانکہ عام غریب تو اس کاروبار سے صرف گزارہ کر رہا ہے , اربوں روپے تو یہ ان مذکورہ سیاستدانوں اور اعلیٰ آفیسروں کے جیبوں میں جا رہا ہے۔
وہ کیونکر یہ سمگلنگ بند ہونے دینگے۔ آپ ذرا غور کریں کہ ایران سے آنے والا تیل سینکڑوں لیویز ، پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کی چوکیوں اور ناکوں سے گزرتا ہوا کراچی اور دوسرے شہروں تک پہنچ جاتا ہے ،راستے میں ہر ایک پیسہ لیتا ہے یہی پیسہ بھی اوپر کی سطح تک جاتا ہے۔
دوسری طرف اگر ہم یہ دیکھیں کہ بلوچستان کے عام لوگ جو اس کاروبار سے منسلک ہیں، اگر یہ کاروبار بند ہوتا ہے پھر وہ کیا کریں ظاہر ہے انھوں نے کسی نا کسی طریقے سے تو اپنے بچوں کا پیٹ تو پالنا ہے۔
ویسے بھی بلوچستان میں روزگار کے ذرائع انتہائی کم ہیں کوئی بڑی منڈی ہے اور نا ہی بڑے بڑے کارخانے جہاں وہ کام کر سکیں۔ یہ خدشہ بھی ذہن میں ہونا چاہئے کہ اگر یہ لوگ بیروزگار ہوتے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دیگر جرائم کے میدان میں داخل ہو سکتے ہیں۔
جس سے ملک اور صوبے کیلئے اور بھی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
نگران حکومت کے حالیہ اقدامات سے وقتی طور پر تو یہ سمگلنگ بند یا کم ہو سکتا ہے مگر مستقل طور پر شاید ایسا نہ ہو کیونکہ ہماری حکومتیں کسی بھی مسئلے کا مستقل حل تلاش نہیں کرتیں۔
بلکہ اچانک فیصلے کرتے ہیں۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سمگلنگ کو روکنے کیلئے مستقل طور پر فیصلے کئے جائیں تاکہ یہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے۔ جو لوگ اس کاروبار سے وابستہ ہیں ان کیلئے متبادل روزگار کا بندوبست کیا جائے تب آہستہ آہستہ یہ بند ہوگا۔ ورنہ ان وقتی اور عارضی اقدامات سے یہ سمگلنگ ختم ہونے والی نہیں ہے۔