|

وقتِ اشاعت :   March 11 – 2016

وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے گوادر سے متعلق اہم اعلانات کئے ہیں اور بلوچستان کے عوام کو سرکاری طور پر یہ خوش خبری سنائی ہے کہ گوادر بلوچستان ہی حصہ رہے گا اور مقامی افراد کے جائز اور قانونی حقوق کے تحفظ کے لئے قوانین بنائے جائیں گے۔ قوم پرستوں کی طرف سے یہ مطالبہ سرفہرست تھا کہ دبئی اور دوسرے ممالک کی طرح بھی قانون بنائے جائیں تاکہ باہرسے آنے والوں کو ووٹ کا حق نہ ہو اور نہ ہی ان کو یہ اجازت دی جائے کہ وہ قومی شناختی کارڈ پر مستقل سکونت کے خانے میں گوادر درج کریں۔ وزیر اعلیٰ نے ایڈیٹرز کونسل کے ظہرانے میں یہ انکشاف کیا کہ وزیر اعلیٰ کی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے اسی سلسلے میں ایک طویل ملاقات ہوئی ہے جس میں یہ اہم ترین فیصلے کئے گئے ہیں جن میں یہ یقین دہانی بھی قانونی طور پر شامل کی گئی ہے کہ باہر سے آنے والوں کو گوادر کا رہائشی تصور نہیں کیا جائے گا گوکہ وہ پاکستانی ہوں گے مستقل سکونت ان کے اپنے آبائی علاقے ہی ہوں گے جہاں ان کی مستقل سکونت ہوگی وہیں ان کا حق رائے دہی بھی ہوگا،وہ وہاں اپنا ووٹ کاسٹ کرسکیں گے۔ عام انتخابات میں وہ گوادر میں ووٹ نہیں ڈال سکیں گے یہ حکومت کا ایک بہت بڑا اور دلیرانہ فیصلہ ہے جس کی بلوچستان کے عوام اور ان کے عوامی نمائندوں کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہئے۔ اس کے بعد بلوچستان کے مقامی لوگوں کے میگا پروجیکٹ پر خدشات ختم ہوں گے۔ بلوچستان کا ہر ذی شعور شخص اس کا مخالف ہے کہ باہر سے آنے والے لوگ بلوچستان کے ساحل ووسائل پر قبضہ کریں، ملازمتیں خود حاصل کریں اور مقامی افراد کو بے روزگار بنائیں کیونکہ فیصلہ کرنے والے لوگ بلوچ اور بلوچستان کے دوست نہیں ہیں یا کرپٹ لوگ ہیں جو نوکریاں فروخت کریں گے۔ ظاہر ہے باہر سے آنے والا آدمی نوکری کے لیے زیادہ سے زیادہ پیسے دینے کی اہلیت رکھتا ہے جبکہ بلوچستان کا آدمی یا غریب بلوچ نان شبینہ کا محتاج ہے، اسی لئے اب کرپشن کی یہ دو کان بند ہوگئی ہے اور کرپٹ افسران ملازمتیں باہر سے آنے والی قوتوں کو فروخت نہیں کرسکیں گے۔ پہلے روزگار گوادر شہر اور اس کے گرد ونواح میں رہنے والوں کو ملے گا۔ اس کے بعد گوادر ضلع اور اس کے بعد مکران کے دوسرے اضلاع اور صوبے کے بلوچ علاقے۔ بہر حال یہ ایک بہت بڑا فیصلہ ہے جس کی حمایت کرنی چاہئے اور اس کا سہرا وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کو جاتا ہے جن کی کوششوں کی وجہ سے وزیر اعظم اس بات پر راضی ہوئے کہ مقامی افراد کو اولیت دی جائے تاکہ بلوچستان میں ترقی کی رفتار نہ صرف تیز تر ہو بلکہ اس کی مخالفت بھی کم سے کم اور بلکہ ختم ہوجائے ۔ جب مقامی لوگوں کو یہ تاثر ملے گا کہ ترقی اور اس کے تمام تر ثمرات صرف اور صرف مقامی افراد کے لئے ہیں تو وہ حکومت اور انتظامیہ سے تعاون بھی کریں گے، اس عمل کی نہ صرف حمایت کریں گے بلکہ اسی میں شرکت بھی کریں گے جو ملک اور صوبے کی ترقی کے لئے نیک شگون ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی حکومت گوادر اور اس کے گرد ونواح میں ترقی کی رفتار کو تیز تر کرے اور تمام منصوبوں کو جلد سے جلد مکمل کیا جائے خصوصاً گوادر کو پانی کی فراہمی کو اولیت دی جائے۔ پورے ساحل مکران پر پانی کے وسائل کو ترقی دی جائے وہاں ڈیم اور پانی کے ذخائر بنائے جائیں تاکہ گوادر ہی نہیں کئی ایک تجارتی بندرگاہیں تعمیر ہوں۔ جہاز سازی کا سب سے بڑا کارخانہ گوادر کے قریب مغربی اور یورپی ممالک کے تعاون سے تعمیر ہو۔ یورپی ممالک جہاز سازی کی صنعت خود تعمیر کریں گے۔ حکومت صرف اس کی باقاعدہ اجازت دے اور وزیر اعلیٰ اس کی اجازت فوری طور پر حاصل کریں۔