بلوچستان کے مکران ڈویژن کی ہر2 سے 3 سال بعد بولی لگائی جاتی ہے۔
پورے مکران کو ٹھیکے پر کسی ایک مافیا کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ جو مافیا نیلامی میں اچھے دام لگائے مکران کو اس کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ مکران میں مختلف مافیاز موجود ہیں جن میں ڈرگ مافیا، لینڈ مافیا، فشریز مافیا اور اغوا برائے تاوان مافیا شامل ہیں۔
3 سال کے وقفے کے بعد مکران کو ڈرگ مافیا کے حوالے کردیا گیا ہے۔
پورے مکران میں ڈرگ مافیا کی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ مکران ڈویژن کے اضلاع کیچ، گوادر اور پنجگور میں چرس، افیون، ہیروئن، کرسٹل، کوکین کے اڈے آزادانہ طور پر چل رہے ہیں۔ بلیدہ، زامران، تمپ، مند، بلو، تربت شہر، گوکدان، گورکوپ، جمک، پیدارک، سامی، شاپک، تجابان، دشت، کلانچ، آسیہ آباد، ملک آباد، آبسر، اورماڑہ، پسنی، کلمت، گوادر ٹاؤن، سر، چہر، کپر، گنز، جیوانی، پشکان، پنجگور ٹاؤن، گوارگو، گیچک، پروم، وشبود سمیت دیگر علاقوں میں منشیات سرعام فروخت ہورہی ہیں۔
منشیات کو سیاسی کلچر کے خلاف ہتھیار کے طورپر استعمال کیا جارہا ہے
تاکہ نوجوان نسل کو کتاب کی جگہ منشیات تھما کر انکی نسل کشی کی جائے۔
منشیات فروشی کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔ مصلحت پرستی کی یہ سیاست کب تک چلے گی؟۔ اتنی بڑی مافیا کا مقابلہ سیاسی جماعتوں کے کردار کے بغیر کیسے ممکن ہوسکے گا؟۔ کیا سیاسی لیڈران اس مافیا سے خوف کھاتے ہیں؟ نہیں تو انہیں کس بات کا ڈر ہے؟۔
یا پھر ان سیاسی جماعتوں کا عوام سے تعلق صرف انتخابات کے دوران ووٹ لینے کی حد تک ہے؟۔
ماضی کی طرح اس بار بھی مکران کے معززین اور بزرگوں نے منشیات کے خلاف یکجا ہونے کا عزم کیا ہے۔
23 ستمبر 2023 کو سوشل میڈیا پر ایک تصویر زیر گردش تھی جس میں ضلع کیچ کی تحصیل بلیدہ کے علاقے الندور میں کچھ بزرگ اور نوجوانوں نے اجلاس طلب کیا تھا۔ یہ مشاورتی اجلاس “الندور ایکشن کمیٹی” کے زیراہتمام منعقد کیا گیا۔ اجلاس کے بعد الندور ایکشن کمیٹی کے رضاکاروں نے، منشیات فروشی کے خلاف مہم چلائی،مختلف اڈوں پر جاکر منشیات فروشوں اور نشہ کے عادی افراد سے بات چیت کی اور تنبیہ کی کہ وہ اس نسل کش کاروبار سے دستبردار ہوجائیں۔
ماضی میں بھی منشیات کے خلاف ایک تحریک چلائی گئی تھی۔ جس کا آغاز ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ سے ہوا تھا۔ ماضی کی انسداد منشیات کی تحریک بھی کسی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے نہیں چلائی گئی تھی بلکہ یہ ایک خودرو تحریک تھی جو منشیات کے عادی افراد کے خاندانوں نے چلائی تھی۔
اگست 2020کو بلیدہ میں خواتین اور بچوں نے منشیات فروشوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہ وہ خواتین تھیں جن کے بیٹے، بھائی، شوہر اور باپ منشیات کے عادی ہوچکے تھے۔ چند خواتین ہمت دکھاکر منشیات کی لعنت کے خلاف سڑکوں پر آئیں، انکا کہنا تھا کہ اب ان کا گھر چلنا مشکل ہوگیا ہے۔
بھوک سے ان کے بچے نڈھال ہوچکے ہیں، گھر چلانے والے تمام مرد منشیات کی لت میں غرق ہوگئے ہیں۔ ان بے بس اور لاچار خواتین کے احتجاج کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو اس نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بلوچ خواتین کی آہ و زاری نے معاشرے کے سوئے ہوئے لوگوں کا ضمیر جگایا۔
جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ گھروں سے نکل آئے۔ اس دوران “انسداد منشیات کمیٹی بلیدہ زامران” کے نام سے پلیٹ فارم تشکیل دی گئی۔ انسداد منشیات کمیٹی بلیدہ زامران کے تحت بلیدہ سے تربت کا ریلی نکالی گئی۔ اس موقع پر تربت کے ہزاروں لوگوں نے ریلی کا استقبال کیا ۔ انسداد منشیات کمیٹی بلیدہ زامران کی ریلی نے مکران کے دیگر علاقے کے لوگوں کو بھی جگایا۔ تربت، دشت، گوادر، پسنی سمیت دیگر علاقوں میں منشیات فروشوں کے خلاف لوگ سڑکوں پر آگئے۔ مکران کے تمام علاقوں کے لوگوں نے علاقائی کمیٹیاں تشکیل دینا شروع کردیں۔
یہ سلسلہ ایک سال تک جاری رہا۔ اس طرح عوامی طاقت نے منشیات فروشوں کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ اسکے نتیجے میں پولیس اور انتظامیہ کو منشیات فروشوں کی پشت پناہی بند کرنا پڑی اور انکے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن ہوا، بے شمار جرائم پیشہ افراد گرفتار ہوئے۔ تاہم منشیات کے خاتمے کا ہدف پورا ہونے کے بعد انسداد منشیات کی تحریک بھی غیرفعال ہوگئی۔ یوں اب تین سال کے بعد ایک مرتبہ پھر مکران کو ڈرگ مافیا کے حوالے کردیا گیا ہے۔
مکران دنیا میں منشیات کی غیر قانونی اسمگلنگ کا ایک اہم روٹ بھی ہے۔ ڈرگ مافیا افغانستان سے مکران کے راستے منشیات دنیا میں اسمگل کرتے ہیں۔
ٹنوں کے حساب سے منشیات مکران لائی جاتی ہے اور پھر کاروان کی شکل میں مکران کی ساحلی پٹی پر لانچوں اور بحری جہازوں کے ذریعے بیرون ممالک بھیج دی جاتی ہے۔ مکران سے جو منشیات دنیا میں اسمگل کی جاتی ہے اس کی مالیت انٹرنیشنل مارکیٹ میں اربوں ڈالرہے۔ افغانستان سے مکران کوسٹل ایریا کا فاصلہ تقریباً 1400 کلومیٹر ہے۔ ۔ اس روٹ سے اتنی بڑی تعداد میں منشیات کو لانا آسان کام نہیں ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں ہر 2کلومیٹر پر چیک پوسٹیں قائم ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں سیکیورٹی کے اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔
تو یہ سب کیسے ہورہا ہے ؟۔ ڈرگ مافیا بنا کسی پشت پناہی بلا خوف و خطر یہ گھناؤنا دھندہ کیسے کرسکتا ہے ؟ متعلقہ اداروں کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مافیاز کو متعلقہ اداروں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔
مکران سے گزرنے والی منشیات کی بھاری مقدار یہاں کے مختلف علاقوں میں بھی فروخت ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے نشے کے عادی افراد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ نوجوان زندہ لاش کی مانند نظر آتے ہیں۔ حکومت ایک منصوبے کے تحت بلوچ نسل کو منشیات کے ذریعے تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔
تاکہ بلوچ معاشرے میں سیاسی کلچر کو تباہ کیا جائے۔
ماضی کی تحریک میں بھی پارلیمانی جماعتیں خاموش تھیں۔ انسداد منشیات کی تحریک میں سیاسی جماعتوں کا کوئی کردار نہیں تھا، وہ صرف اسمبلیوں میں پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کررہے تھے۔ جبکہ عوام بغیر کسی سیاسی قیادت کے سڑکوں پر سراپا احتجاج تھی۔حالانکہ ان جماعتوں کی بعض علاقائی قیادت خود انسداد منشیات کمیٹیوں کا حصہ تھی لیکن وہ انفرادی طورپر شامل تھے کیونکہ ان کی پارٹی کی کوئی واضح پالیسی نہیں تھی۔ اگر پارٹی پالیسی ہوتی تو سیاسی جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے ریلیاں اور احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کرواتیں،۔
مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ ڈرگ مافیا کے خلاف تحریک خود رو انداز میں چل رہی تھی۔ تحریک کی قیادت سیاسی لیڈرشپ کے بجائے سماجی رہنما کررہے تھے۔ منشیات کی لعنت ایک سماجی و معاشرتی برائی کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی اور انتظامی معاملہ ہے جس میں مبینہ طورپرحکومتی ادارے براہ راست ملوث ہیں۔
ریاستی ڈھانچے میں پارلیمنٹ، عدلیہ، انتظامیہ، فوج وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ڈھانچہ عوامی مینڈیٹ اور ٹیکس سے تشکیل پاتا ہے۔ پارلیمنٹ سپریم باڈی ہوتی ہے۔ جہاں عوامی مینڈیٹ سے کامیاب ہونے والے نمائندے قانون سازی کرتے ہیں اور دیگر ادارے اس پر عملدرآمد کرواتے ہیں۔ اس طرح یہ سرکل مکمل طور پر سیاسی اور انتظامی ہے۔
“کلمت” جیسی پسماندہ ماہی گیر بستی جہاں سردرد کی دوا ملتی ہے۔
اور نہ بچوں کی تعلیم کے لئے کتابیں میسر ہیں۔ وہاں بھی 24 گھنٹے ہیروئن اور افیون دستیاب ہے۔ دن رات منشیات کی سپلائی جاری رہتی ہے۔ اسی طرح کلانچ جیسے علاقے میں جہاں عورتیں بھی اس لعنت میں مبتلا ہوگئیں ہیں۔ یہ ہم سب کے لئے شرم کا مقام ہے۔ سوال ہے کہ ہماری بلوچی غیرت کہاں گئی ہے؟۔ اب تو بات ہمارے گھر کی دہلیز تک پہنچ گئی ہے۔ ہماری عزت و ننگ خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اٹھا جائے !۔ ان منشیات کے اڈوں کو منشیات فروشوں سمیت نذر آتش کیا جائے، ڈرگ مافیا کے کارندوں کو چوراہوں اور گلیوں میں سرعام پھانسی دی جائے۔۔۔
Saeed Jan Baloch
عزیز سنگھور کا قلم ایک بار پھر بلوچستان کے دلسوز المیہ پر چیخ رہا ہے ان کی آواز کو نقار خانہ کے شور میں تو نہیں سنا جاسکتا البتہ زندہ ضمیر باشعور لوگوں کے ذہنوں میں انقلاب کی صورت میں بھرپا کیا جاسکتا ہے آہیں عزیز سنگھور کی آواز میں ہم آواز ہوکر منشیات کے ذریعے بلوچ قوم کی نسل کشی کی ایک نئی کوشش کو ناکام بنایا جائے